کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 78
صلی اللّٰہ علیہ وسلم و سننہ و ایامہ‘‘ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے تدریب الراوی (ص ۶۴) میں،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری (ص ۱۰) میں مزید اس کی وضاحت کر دی ہے کہ امام بخاری کی کتاب کا موضوع تعلیقات نہیں بلکہ مسند روایات ہیں،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری کی ’’الفصل الرابع‘‘ میں معلق روایات لانے کی غرض و غایت بھی ذکر کر دی ہے۔شائقین اس کی طرف مراجعت فرمالیں،مگر ہدایہ کی روایات کی پوزیشن قطعاً یہ نہیں مصنف نے ان احادیث سے استدلال کیا ہے نہ اس کی سند بیان کی اور نہ ہی اس کا کسی کتاب کی طرف انتساب کیا۔[1] (و شتان بینھما) جب حقیقت حال یہ ہے تو صحیح بخاری کی انہی مسند روایات کے بارے میں اہل حدیث حضرات ’’آنکھیں بند کرکے ‘‘ کہتے ہیں کہ وہ ’’نص قطعی‘‘ ہیں اور قطعاً صحیح ہیں،خود امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ ما ادخلت فی کتابی الا ما صح‘‘ میں نے اپنی کتاب میں صرف صحیح روایات داخل کی ہیں۔ صحیح بخاری کی مسند روایات کی صحت پر علماء محققین کا اتفاق ہے حافظ ابن نصر السجزی فرماتے ہیں : ’’فقہاء وغیرہ کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی آدمی طلاق کی قسم کھائے کہ بخاری کی تمام روایات صحیح ہیں تو وہ حانث نہیں ہوگا۔‘‘(تدریب الراوی ص ۶۴) یہی بات علامہ نووی رحمہ اللہ نے امام الحرمین رحمہ اللہ سے نقل کی ہے۔(مقدمہ شرح مسلم ص ۱۴) امام ابواسحاق الاسفرائنی فرماتے ہیں :
[1] ایسی معلق یا بے سند روایت جس پر کسی مسئلہ کا مدار ہو،اسے محض اس بنیاد پر قبول کر لینا کہ اس کی کوئی سند ہوگی نہایت کمزور سہارا ہے،حسن ظن بجا،مگر دین کا معاملہ دلیل پر مبنی ہے محض حسن ظن پر نہیں،جب دین محفوظ ہے تواس کی دلیل بھی بہر آئینہ محفوظ ہونی چاہیے،جیسا کہ پہلے ہم وضاحت کر آئے ہیں۔