کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 77
الضعاف ‘‘ (حاشیہ دراسات و بینات ص ۲۲) ’’ کہ کیا ایسی صورت میں کسی کے لیے جائز ہے کہ وہ یہ کہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ بھی ضعیف روایتوں کو لانے کے عادی ہیں۔‘‘ قارئین کرام! نعمانی صاحب نے جن معلق روایات کی نشاندہی کرتے ہوئے (کہ یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو نہیں ملیں ) یہ بات کہی ہے۔ان کی حقیقت آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔اب انصاف سے کہیے،کیا امام صاحب نے اپنے دعویٰ کی بنیاد ان معلق روایات پر رکھی ہے۔اگر نہیں اور قطعاً نہیں تو پھر جو نتیجہ نعمانی صاحب نے اخذ کیا ہے وہ اس میں کس حد تک حق بجانب ہیں۔اور اب استاد جی سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر ان کے شاگرد رشید لکھتے ہیں : ’’اگر ہدایہ کی بعض روایات بعد میں آنے والے محدثین کو نہ مل سکیں اور اس بنا پر ان پر وضع کا الزام لگا یاجا سکتا ہے تو پھر امام بخاری رحمہ اللہ بھی اس الزام سے پاک قرار نہیں دیے جا سکتے جب کہ غیر مقلدین حضرات آنکھیں بن کرکے بخاری کی جملہ روایات کو نص قطعی سے کم نہیں جانتے۔‘‘ (بینات :۲۶) حالانکہ اس پوری عبارت سے ان کی جہالت اور بے خبری واضح طور پر نظر آرہی ہے۔نعمانی صاحب کی تقلید میں انھوں نے جو کچھ فرمایا ہے ہمیں اس کے جواب میں علامہ زیلعی رحمہ اللہ کا وہ جملہ بار بار یاد آرہا ہے جو انھوں نے پیش رو بزرگ کے بارے میں کہا ہے: ’’فالمقلد ذھل والمقلد جھل‘‘ کیوں نہیں کہ ان بے چاروں کو یہ علم نہیں یا وہ دیدہ و دانستہ ناخواندہ حضرات کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناپاک جسارت کر رہے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ ’’معلق روایات‘‘ ایک مخصوص سند سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو نہیں ملیں۔جس سے اس روایت کی صحت پر کوئی حرف نہیں آتا۔جیسا کہ ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں۔پھر امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلوب و مقصود بھی وہ معلق روایات نہیں بلکہ ان کا مقصود وہ روایات ہیں جو انھوں نے بالاسناد ذکر کی ہیں۔خود کتاب کا نام ہی اس ثبوت کے لیے کافی ہے،اور وہ یہ ہے: ’’ الجامع الصحیح المسند المختصر من حدیث رسول اللّٰہ