کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 75
وسلم یخوف اللّٰہ عبادہ بالکسوف‘‘ کی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے :’’ قتیبۃ بن سعید قال حدثنا حماد بن زید عن یونس عن الحسن عن ابی بکرۃ ‘‘ کی سند سے متصل روایت بیان کی ہے اور فرمایا ہے کہ عبدالوارث،شعبہ،خالد بن عبداﷲ اور حماد بن سلمہ نے یونس سے یہ روایت بیان کی ہے،مگر اس میں :’’ یخوف بھما عبادہ ‘‘کے الفاظ ذکر نہیں کیے۔پھر فرماتے ہیں : ’’تابعہ اشعث عن الحسن و تابعہ موسٰی عن مبارک عن الحسن قال اخبرنی ابوبکرۃ ‘‘ ’’یعنی یونس کے علاوہ اشعث نے حسن سے اسی طرح متابعت کی ہے کہ یہ لفظ ذکر نہیں کیے اور اس( یعنی قتیبہ) کی متابعت موسیٰ نے مبارک عن الحسن سے کی ہے اور یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اسی موسیٰ بن مبارک کی سند کے متعلق کہتے ہیں : ’’ لم تفع لی ھذہ الروایۃ الی الاٰن من طریق واحد منھما‘‘ [1] ’’کہ مجھے اب تک یہ روایت ان دونوں میں سے کسی طریق سے نہیں ملی۔(فتح الباری ص ۵۳۶ ج ۲) مولانا نعمانی رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد رشید کی ہوشیاری دیکھیے کہ انھوں نے ’’الی الاٰن‘‘ تک ہی الفاظ نقل کیے ہیں جس سے وہ دراصل اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہیں کہ ’’یہ روایت‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو نہیں ملی۔حالانکہ کہنا یہ چاہیے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی روایت کسی سند سے نہیں ملی۔غور فرمائیے دونوں باتوں میں بعد المشرقین ہے۔کہاں روایت نہ ملنا،’’ لم اجدہ‘‘ اور کہاں مخصوص سند سے روایت نہ ملنا۔مگر نعمانی صاحب نے ہاتھ کی صفائی سے اپنا مطلب نکالنے کی گنجائش پیدا کر لی ؎
[1] موسیٰ سے مراد ابن اسماعیل رحمہ اللہ التبوذکی ہیں جیسا کہ علامہ مزی رحمہ اللہ نے کہا ہے یا موسیٰ بن داؤد الضبی ہیں جیسا کہ علامہ الدمیاطی رحمہ اللہ وغیرہ کا خیا ل ہے اور ’’منھما‘‘ سے یہی دونوں مراد ہیں کہ دونوں میں سے جو بھی ہے مجھے اس کی روایت نہیں ملی۔