کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 74
ان کے شاگردِ رشید نے صحیح بخاری کی جن معلق روایات کے بارے میں کہا ہے کہ وہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو نہیں ملیں ان کے اس دعویٰ کی حقیقت کیا ہے ؟ چنانچہ اس سلسلے میں تین روایات کی نشاندہی کی گئی ہے: پہلی معلق روایت یہ روایت صحیح بخاری کے ’’ باب لا یستنجی بروث سے نقل کی گئی ہے جس میں امام صاحب رحمہ اللہ نے پہلے ’’ زھیر عن ابی إسحاق عن عبدالرحمٰن بن الاسود عن ابیہ‘‘ کی سند سے متصل روایت ذکر کی ہے اور پھر فرمایا ہے: ’’ و قال إبراہیم بن یوسف عن أبیہ عن أبي إسحاق حدثني عبدالرحمٰن‘‘ اس معلق روایت کے بارے میں حافظ ابن حجر نے کہا ہے: لم اجدھا (مقدمہ فتح الباری ص ۲۲)۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر’’یہ سند ‘‘حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو نہیں ملی تو کیا اس کا یہ مفہوم ہے کہ اس روایت کا بھی وہی حال ہو جو ہدایہ کی ایسی روایات کا ہے،جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو نہیں ملیں،تف ہے ایسی تحقیق اور ایسے علم پر !کیا امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلوب یہی معلق روایت ہے ؟ اور ان کے استدلال کی بنیاد اسی پر ہے؟ قطعاً نہیں بلکہ ان کا مطلوب تو وہی روایت ہے جو ابتدا میں ذکر کی ہے۔اس کی مزید تائید میں اگر انھوں نے معلق سند ذکر کی ہے اور وہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو نہیں ملی تو اس سے اصل روایت پر کیا اثر ہوا؟ پھر ابراہیم ہی یہ سند ذکر کرنے میں منفرد نہیں،شریک قاضی،زکریا بن ابی زائدہ وغیرہما نے بھی اس کی متابعت کی ہے۔جس کی تفصیل فتح الباری (ص ۲۵۸ ج ۱) میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دوسری معلق روایت بالکل یہی نوعیت دوسری ’’معلق متابعات،،کی ہے جن کا ذکر نعمانی رحمہ اللہ نے کیا ہے،چنانچہ دوسری روایت: ’’ کتاب الکسوف‘‘ کے ’’ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ