کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 73
باحوالہ اس کا ذکر کرآئے ہیں۔ بلکہ امام ابوالعباس القرطبی رحمہ اللہ نے ’’المفہم ‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ : ’’بعض اہل الرائے کے نزدیک جو بات قیاس جلی کے موافق ہو اس کا آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کی طرف انتساب جائز ہے۔‘‘ چنانچہ علامہ عراقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وحکی القرطبی فی المفھم عن بعض اھل الرای ان ما وافق القیاس الجلی جاز ان یعزی الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘(شرح الفیہ للعراقی ص ۱۲۷ )۔ علامہ عراقی رحمہ اللہ کے علاوہ یہی بات فتح المغیث للسخاوی رحمہ اللہ ص ۱۱۱،النکت لابن حجر ص ۸۵۲ ج ۲،تدریب الراوی ص ۱۵۸، توجیہ النظر ص ۷۵،توضیح الافکار صفحہ ۸۷جلد۲ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں : ’’لھذا تری کتبھم مشحونۃ باحادیث تشھد متونھا بأنھا موضوعۃ لأنھا تشبہ فتاوی الفقہاء ولأنھم لا یقیمون لھا سنداً‘‘ (النکت ص ۸۵۲ ج ۲) ’’اس لیے آپ ان کی کتابوں کو ایسی حدیثوں سے بھری ہوئی دیکھیں گے جن کے متون ان کے بناوٹی ہونے کی گواہی دے رہے ہوں گے،کیوں کہ وہ فقہاء کے فتاویٰ کے مشابہ ہیں اور وہ ان کی کوئی سند بیان نہیں کرتے۔‘‘ جب صورت واقعہ یہ ہے تو پھر ان حضرات کا مذہبی حمیت میں ایسی بے سند روایات کو صحیح بخاری کی معلق روایات پر قیاس کرنا سراسر ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے؟ صحیح بخاری کی تین معلق روایات کی تحقیق آگے بڑھنے سے پہلے یہ بھی دیکھ لیجیے کہ مولانا نعمانی رحمہ اللہ اور ان کی’’ تقلید‘‘میں