کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 72
کہ امام بخاری رحمہ اللہ بھی ضعیف روایتوں کو لانے کے عادی تھے۔‘‘ ہمارے نزدیک ہدایہ کے دفاع میں یہ تیسری دلیل بیت عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے۔صحیح بخاری کی معلق روایات اور احادیث ہدایہ میں تقابل ہی ان کی قوت استدلال پر نوحہ کناں ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے جو روایات نقل کی ہیں ان کی اسانید گو انھوں نے حذف کر دی ہیں مگر ان کے انداز بیان سے ان کی صحت و ضعف کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔جس کی تفصیل ہدی الساری مقدمہ فتح الباری اور النکت لابن الصلاح رحمہ اللہ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بیان کر دی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کا دور،تدوین حدیث کا دور ہے لہٰذا اگر امام بخاری رحمہ اللہ کی معلق روایت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو نہیں ملی یا امام ترمذی نے ’’ وفی الباب ‘‘ میں جن صحابہ کی روایات کا ذکر کیا ہے اور ان میں سے بعض بعد میں کسی اہل علم کو نہیں ملیں تواس دور میں اس کا امکان ہے کہ کسی محدث کو وہ روایات بالاسناد نہ ملی ہوں۔کیوں کہ دور تدوین میں ایک محدث کے پاس جو روایات ہیں ضروری نہیں کہ وہ تمام تر دوسرے محدثین کے ہاں بھی معروف و متداول ہوں۔اس کی مزید وضاحت ان شاء اﷲ عنقریب آ رہی ہے۔ پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے کسی مسئلہ کی بنیاد معلق روایات پر نہیں رکھی اور نہ ہی معلق روایات امام صاحب کا مطلوب و مقصود ہیں۔جس کی ضروری تقصیل آئندہ آر ہی ہے۔بالکل یہی معاملہ امام ترمذی کی ’’ و فی الباب ‘‘ روایات کا ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے دعویٰ کی دلیل مسند روایت ہے اور ’’ و فی الباب ‘‘میں تائید کے طور پر ان روایات کا اشارہ کر دیتے ہیں۔اس کے برعکس صاحب ہدایہ رحمہ اللہ یا علامہ کاسانی رحمہ اللہ وغیرہ فقہاء کے۔کہ ان کا دور وہ ہے کہ جب تدوین حدیث کا کام مکمل ہو چکا تھا اور ذخیرہ احادیث کتابی شکل میں محفوظ ہو گیا تھا۔لہٰذا ان کا استدلال کے طور پر بلااسناد اور بغیر کسی ماخذ کے روایت بیان کرنا اسے صحیح بخاری کی معلق روایات پر کیوں کر قیاس کیا جا سکتا ہے؟ وضع احادیث اور بعض اہل الرائے حدیث کے باب میں عموماً اہل الرائے کی یتیمی اور لاتعلقی ائمہ محدثین کے ہاں ہی معروف نہیں خود انصاف پسند احناف نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے،جیسا کہ پہلے