کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 7
وہاں علماء اور مدارس عربیہ میں علم حدیث کی تدریس و تعلیم کا اہتمام ہوا۔جب اسلام کے ان اصلی سرچشموں یعنی قران و حدیث سے لگاؤ بڑھا تو اصحابِ علم و تحقیق پر یہ حقیقت آشکارہ ہوئی کہ یہاں کا فقہی مسلک کتاب و سنت کے بحر بے کنار کا ایک قطرہ ہے۔یہ کتاب وسنت کی کامل تعبیر قطعاً نہیں،بلکہ بہت سے ایسے مسائل بھی ان کتابوں میں مندرج ہیں جو قرآن و سنت کے صحیح اور صریح فیصلے کے برعکس ہیں جنھیں بدقسمتی سے عین اسلام سمجھ کر عمل کیا جاتا ہے اور ان میں بہت سی من گھڑت روایات ایسی ہیں جن پر مسلک کی عمارت استوار کی گئی ہے۔ظاہر ہے کہ قرآن و سنت کے مقابلہ میں محض قیاسی مسائل پر عمل جہاں ﴿ فویل للذین یکتبون الکتٰب بأیدیھم ثم یقولون ھذا من عنداﷲ۔﴾ کا مصداق ہے وہاں موضوع اور من گھڑت روایات سے استدلال اور اس پر خاموشی ’’ کفی بالمرء کذبًا ان یحدث بکل ما سمع‘‘کے زمرے میں آتا ہے۔
چنانچہ بعض اصحاب علم و فضل نے انہی فقہی کتب کو پیش نظر رکھ کر محض دینی فریضہ پورا کرتے ہوئے ان کے مسائل ا ور ان میں پیش کردہ احادیث پر نقد و تبصرہ کیا۔جن میں مولانا بدیع الزماں رحمہ اللہ کی ’’فتح المبین‘‘ مولانا ابوالحسن رحمہ اللہ سیالکوٹی کی’’الظفر المبین‘‘اور’’الکلام المتین‘‘مولانا عبدالجلیل سامرودی رحمہ اللہ کی ’’فقہ احناف کے اسراری گر‘‘ مولانا وحید الزمان رحمہ اللہ کی ’’تنقید الہدایہ‘‘ مولانا محمد رحمہ اللہ جونا گڑھی کی ’’درایت محمدی‘‘اور مولانا محمد یوسف رحمہ اللہ جے پوری کی ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ خاص طو رپر قابل ذکر ہیں۔
یادش بخیر! مؤخر الذکر کتاب میں ایک عنوان ’’ صاحب ہدایہ کا افتراء‘‘ہے۔جسے دیکھ کر ایک حنفی عالم کی رگ حمیت پھڑک اٹھی تو اس کی تردید میں ایک تیز اور تیکھا سا مضمون ماہنامہ ’’بینات‘‘کراچی میں لکھ مارا،جس پر ہدایہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ امام بخاری رحمہ اللہ اور صحیح بخاری کے بارے میں اپنے روایتی بغض و عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قرض کو چکانے کی ناکام کوشش کی گئی۔جس کا بروقت جواب ہمارے ادارے کے رفیق مولانا ارشاد الحق اثری نے دیا جو ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘کی دس قسطوں میں شائع ہوا۔