کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 69
نے ’’السنن‘‘ (ص ۳۴۹ طبع ہند،ج ۳ ص ۱۴۵) اور امام بیہقی نے السنن(ص ۱۰۱ ج ۸) میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔بلاشبہ یہ مرسل ہے مگر مراسیل تو احناف کے ہاں حجت ہیں۔پھر کیا عمرو بن شعیب اور ا بن جریج مجہول راوی ہیں اور مصنف عبدالرزاق،سنن دارقطنی اور سنن بیہقی حدیث کی کتابیں نہیں کہ کہہ دیا گیا : کہ اس کے راوی غیر معروف اور کتب حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔یہی نہیں بلکہ علامہ مرغینانی رحمہ اللہ ایک مقام پر لکھتے ہیں :
’’ و اما اھل خیبر فالنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اقرھم علی املاکھم۔۔۔الخ‘‘(ہدایۃ کتاب الدیات،باب القسامۃ ص ۶۲۳ ج ۲)
’’کہ نبی صلی اﷲعلیہ وسلم نے اہل خیبر کو ان کی ملکیت پر برقرار رکھا۔‘‘
حالانکہ خود ہی علامہ موصوف نے کتاب السیر میں لکھا ہے:
’’ و اذا فتح الامام بلدۃ عنوۃ ای قھرا فھو بالخیار ان شاء قسمھا بین المسلمین کما فعل رسول اللّٰہ علیہ السلام بخیبر‘‘
(باب الغنائم و قسمتہا ص ۵۶۶ ج ۱)
’’کہ جب امام کسی شہر کو لڑائی سے فتح کرے تو اسے اختیار ہے،اگر چاہے تو اسے مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردے جیسا کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے خیبر میں کیا تھا۔‘‘
علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے صاحب ہدایہ کے اس تعارض کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ صحیح یہی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے خیبر کو مسلمان مجاہدین میں تقسیم کر دیا تھا۔دیکھیے: (نصب الرایہ ص ۲۹۷ ج ۳،ص ۳۹۷ ج ۴)
معلوم یوں ہوتا ہے کہ ایک جگہ یہ مسئلہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ اگر کسی شہر کومسلمان امام لڑائی سے فتح کرے تو اسے مسلمانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔اس لیے دلیل لکھ دی کہ خیبر کو آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے تقسیم کیا تھا۔مگرآگے چل کر جب یہ مسئلہ ثابت کرنے کی ضرورت پیش آئی کہ اگر کوئی شخص کسی جگہ قتل ہو جائے،قاتل کا علم نہ ہو تواس جگہ سے