کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 68
ابویعلیٰ وغیرہ میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ ’’لا صلاۃ بعد الصبح الا رکعتین‘‘ کہ طلوع صبح کے بعد سوائے دو رکعتوں کے اور کوئی نماز نہیں،یہی روایت حضرت عبداﷲ بن عمرو اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے،محدث ڈیانوی نے اعلام اھل العصر باحکام رکعتی الفجر (ص ۸۳ تا ص ۱۰۱) میں اس پر تفصیلاً بحث کی ہے،علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے(ارواء الغلیل ص ۲۳۲ ج ۲)۔مولانا بنوری مرحوم نے بھی اس کی صحت کو تسلیم کیا ہے۔(معارف السنن ص ۶۵۔۶۷ ج ۴)۔علامہ شوکانی رحمہ اللہ بھی اسے قابل احتجاج قرار دیتے ہیں۔(نیل ص ۹۰ ج ۳) نیز دیکھیے نصب الرایہ (ص ۲۵۵،۲۵۶ ج ۱)،العرف الشذی (ص۱۸۹)۔
اندازہ کیجیے!طلوع فجر کے بعد دوسنتوں سے زائد نوافل پڑھنے کی صریح ممانعت متداول کتب احادیث میں موجود مگر اس کے باوجود علامہ مرغینانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ممانعت پر کوئی نص نہیں،نہ پڑھنے کی دلیل آپ کا عمل ہے کہ آپ نے دوسنتوں سے زائد کچھ نہیں پڑھا۔سبحان اللّٰہ!.
اسی طرح کافر قتل کر دیا جائے تواس کی دیت کے متعلق لکھتے ہیں :
’’امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کافر ذمی کی دیت چار ہزار درہم ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے نصرانی اور یہودی کی دیت چار ہزار درہم مقرر فرمائی۔مگر:
’’ و ماروا ہ الشافعی لم یعرف راویہ و لم یذکر فی کتب الحدیث‘‘
جسے شافعی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے اس کا راوی غیر معروف ہے۔اور کتب حدیث میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں۔(ہدایہ کتاب الدیات ص ۵۷۰ ج ۲)
حالانکہ امام عبدالرزاق نے ’’المصنف‘‘ (ص ۹۲ ج ۱۰) میں یہ روایت اخبرنا ابن جریج اخبرنی عمرو بن شعیب ‘‘کی سند سے بیان کی ہے۔اور امام دارقطنی