کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 67
ابودجانہ کے انتقال کا تذکرہ بہر نوع علط ہے،علامہ السرخسی رحمہ اللہ اور ان کے بعد علامہ مرغینانی وغیرہ کا بھی یہ وہم ہے۔[1]
تعجب ہے کہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے شرح ہدایہ (ج ۳ ص ۲۵۰ ) میں اس کو وہم فاحش قرار دیا مگر خود ہی منحۃ السلوک شرح تحفۃ الملوک میں ماتن کے الفاظ : ’’ویدخل المیت فیہ من جھۃ القبلۃ ‘‘ کی شرح میں علامہ مرغینانی رحمہ اللہ کی گویا اتباع میں لکھ دیا:’’ لانہ علیہ الصلاۃ والسلام اخذ ابا دجانۃ من قبل القبلۃ ‘‘علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے اسے خطأ فاحش قرار دیا اور فرمایا کہ تعجب ہے،صاحب ہدایہ کی جو غلطی نکالی تھی خود اس میں مبتلا ہو گئے۔(رفع الستر عن کیفیۃ ادخال المیت و توجیھہ الی القبر ص ۱۶۲ درمجموعۃ الرسائل الست،مقدمہ ہدایہ صفحہ۱۳)
اسی طرح علامہ مرغینانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ و یکرہ ان یتنفل بعد طلوع الفجر باکثر من رکعتی الفجر لأنہ علیہ السلام لم یزد علیھما مع حرصہ علی الصلاۃ ‘‘
(ہدایہ ص ۸۶ ج ۱)
کہ طلوع فجر کے بعد دو سنتوں کے علاوہ کوئی زائد نفلی نماز پڑھنا مکروہ ہے کیوں کہ نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم نے باوجود نماز پر حریص ہونے کے اس سے زیادہ نماز نہیں پڑھی۔علامہ مرغینانی رحمہ اللہ کی اسی عبارت کے متعلق عصر حاضر کے نامور دیوبندی وکیل مولانا سرفراز صفدر ’’بالآ خر ‘‘ لکھتے ہیں :
’’اس موقع پر نفلی نماز کے ترک پر صاحب ہدایہ کی رائے میں کوئی صریح نص موجود نہیں۔‘‘ (راہ سنت ص ۹۶،ایڈیشن نمبر ۲۰/اکتوبر ۱۹۹۴ء )
بات بالکل واضح ہے کہ علامہ مرغینانی رحمہ اللہ کے ہاں طلوع فجر کے بعد سنتوں سے زائد نوافل نہ پڑھنے کی کوئی نص نہیں۔حالانکہ جامع ترمذی،ابوداؤد،مسند امام احمد،دارقطنی،
[1] المبسوط کے مطبوعہ نسخہ میں ہمیں علامہ سرخسی کے محولہ الفاظ نہیں ملے۔واﷲ اعلم۔!