کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 65
اور سنن و مسانید میں مروی ہے،علامہ مرغینانی رحمہ اللہ اس سے بے خبر اور فرماتے ہیں کہ وہ منقول نہیں،حیرت ہے کہ اتنے ’’بڑے محدث‘‘ سے یہ روایات کیسے مخفی رہ گئیں۔اہل الرائے تاویل کے بادشاہ ہیں۔خطبہ کی جو تاویل کی گئی وہ سب معلوم۔مسلک و موقف کے خلاف روایت کی تاویل کا حق ہم ان سے قطعاً نہیں چھینتے مگر وہ یہ تو نہ فرمائیں کہ خطبہ منقول نہیں۔
خطبہ کی انہی روایات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے خطبہ کا قصد نہیں کیا تھا مگر علامہ زیلعی نے اس کی بھی تردید فرمائی کہ:
’’واستضعفہ الشیخ تقی الدین فقال ان الخطبۃ لا ینحصر مقاصدھا فی شیء معین سیماً و قد ورد أنہ صعد المنبر وبدأ بما ھو المقصود من الخطبۃ فحمد اللّٰہ واثنی علیہ و وعظ وذکر و قد یتفق دخول بعض ھذہ الامور فی مقاصدھا مثل ذکر الجنۃ والنار وکونھما من آیات اللّٰہ بل ھو کذلک جزما‘‘
(نصب الرایہ ص ۲۳۷،۲۳۸ ج ۲)
شیخ تقی الدین نے اس تاویل کو کمزور کہا ہے اور فرمایا ہے کہ خطبہ کے مقاصد کسی معین شیء میں منحصر نہیں جب کہ یہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور اس سے کلام کا آغاز فرمایا جو خطبہ میں مقصود ہوتا ہے،اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی،وعظ و نصیحت فرمائی اور یہ بعض امور مقاصد خطبہ میں بالاتفاق شامل ہیں۔جیسے جنت و دوزخ کا ذکر اور چاند سورج کا جزماً اﷲ تعالیٰ کی نشانیاں قرار دینا۔
علامہ زیلعی کی اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ خطبہ جن امور پر مشتمل ہوتا ہے ان میں بعض یہاں بھی پائے جاتے ہیں۔اس لیے خطبہ کا انکار بہر نوع غلط ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی البنایۃ (ص ۱۴۷،۱۴۹ ج ۳) میں صاحب ہدایہ کی تردید کی،اور ان کے دفاع میں تاویل کی راہ اختیار کرنے والوں کا ہر اعتبار سے جواب دیا،جو قابل مراجعت ہے۔پوری تفصیل تطویل کا باعث ہوگی۔