کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 62
زیر نظر ہیں۔مگر یہ عجالہ نافعہ اس تفصیل کی اجازت نہیں دیتا۔اس ضروری وضاحت سے مولانا نعمانی رحمہ اللہ وغیرہ کے اس موقف کی کمزوری واضح ہو جاتی ہے کہ صاحب ہدایہ اور علامہ کاسانی رحمہ اللہ کے استدلال کی بنیاد ناقابل احتجاج روایات پر نہیں۔
خود علمائے احناف کی رائے بھی اس کے خلاف ہے۔وہ ہدایہ میں اغلاط و اوہام کو تسلیم کرتے ہیں اور اس میں ذکر کردہ روایات پر بدون ثبوت اعتمادصحیح قرار نہیں دیتے۔اور یہ صرف ہدایہ یا بدائع الصنائع کی بات نہیں بلکہ عموماً فقہاء کی کتابوں کا یہی حال ہے جیسا کہ علامہ لکھنوی رحمہ اللہ کے حوالے سے ہم نقل کر آئے ہیں۔
صاحب ہدایہ کا نقل روایت میں اسلوب
ہماری ان گزارشات سے عیاں ہو جاتا ہے کہ
۱۔صاحب ہدایہ موضوع اور بے اصل روایات سے بھی استدلال کرتے ہیں۔
۲۔علاوہ ازیں کبھی معروف حدیث کے مفہوم کو کمی اور زیادتی کے ساتھ بطور حدیث ذکر کرتے ہیں۔
۳۔کبھی مجموعہ احادیث کے مفہوم کو مستقل روایت کے طو رپر بیان کرتے ہیں۔
۴۔کبھی معروف حدیث کے متن میں ایسے الفاظ کا اضافہ کرتے ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی اور وہی اضافہ شدہ الفاظ ان کا مطلوب و مقصود ہوتے ہیں۔
۵۔کبھی موقوفات صحابہ و تابعین کو مرفوع حدیث بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔
۶۔کبھی آثار اور موقوف روایات کے الفاظ کو مرفوع روایت میں ملا دیتے ہیں۔
۷۔کبھی نقل روایت میں بعض الفاظ کو تبدیل کرتے ہیں اور پھر انہی تبدیل شدہ الفاظ سے استدلال کرتے ہیں۔
۸۔کبھی موضوع اور ضعیف روایات کو ذکر کرتے ہیں اور پھر اس کی بنیاد پر صحیح بخاری کی حدیث کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا کوئی صاحب ذوق انکار نہیں کر سکتا۔ہمارے فاضل دوست مولانا حافظ ثناء اﷲ الزاہدی حفظہ اﷲ نے’’ تحقیق الغایہ بترتیب الرواۃ