کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 59
قطعاً نہیں،جس کی تفصیل نصب الرایہ (ص ۲۹۳،ج ۳)،التلخیص (ص ۲۰۹ ج ۳) ارواء الغلیل (ص ۲۲۴ ج ۶) البنایۃ (ص ۱۱۷ ج ۶) میں دیکھی جا سکتی ہے۔حتی کہ جامع المسانید للخوارزمی (ص ۸۲،ج ۲) میں بھی ’’الیمین‘‘ کے بغیر مذکور ہے۔
علامہ شامی رحمہ اللہ نے رد المختار (ص ۷۰۹ ج ۴) میں فرمایا ہے کہ ’’الیمین ‘‘ کا لفظ غیر معروف ہے اور معنوی اعتبار سے بھی یہ درست نہیں بلکہ بھول کر قسم اٹھانے والے کے بارے میں اس سے استدلال نہ نصاً درست ہے نہ ہی قیاساً۔گویا روایۃً تویہ لفظ ساقط الاعتبار تھا ہی قیاساً بھی ا س سے استدلال درست نہیں۔بتلائیے!اس اضافہ کا فائدہ کیا ہوا؟
تلک عشرۃ کاملۃ۔
ہم محض مشتے نمونہ از خروارے انہی روایات پر اکتفا کرتے ہیں۔بتلانا صرف یہ مطلوب ہے کہ ’’صرف تین ‘‘ حدیثیں نہیں جیسا کہ مولانا سردار احمد صاحب سمجھ رہے ہیں بلکہ ایسی بہت سی روایات ہیں جنھیں صاحب ہدایہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے مگر ان کی کوئی اصل نہیں۔
علامہ کاسانی رحمہ اللہ اور ان کی نقل کردہ روایات
مولانا عبدالرشید صاحب نعمانی رحمہ اللہ نے صاحب ہدایہ کے ساتھ ساتھ علاء الدین ابی بکر بن مسعود کاسانی ا رحمہ اللہ لمتوفی ۵۸۷ھ کے بارے میں بھی انہی خیالات کا اعادہ اور ان کی کتاب ’’بدائع الصنائع ‘‘ میں مندرجہ روایات کے متعلق بھی اسی حسن ظن کا اظہار کیا ہے۔حالانکہ علامہ کاسانی رحمہ اللہ کی بدائع الصنائع میں بھی ایسی بہت سی بے اصل روایات ہیں جن کا کہیں کوئی وجود نہیں۔مثلاً رفع الیدین کے نسخ پر علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے یہ روایت بڑے زوردار الفاظ میں یوں درج کی ہے:
’’ و ما رواہ منسوخ فانہ روی انہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یرفع ثم ترک صلی اللّٰہ علیہ وسلم بدلیل ماروی ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ انہ قال رفع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرفعنا و ترک فترکنا‘‘(بدائع الصنائع ص ۵۴۸ ج ۱)