کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 58
(۲) ’’ من روی عنی حقاً فأنا اقولہ و ان لم اکن قلتہ،و من روی باطلاً فانی لا اقول بالباطل‘‘
جس نے میری طرف سے حق بات بیان کی تو وہ میری ہی بات ہے اگرچہ میں نے نہ کہی ہو،ا ور جس نے باطل بات بیان کی تو میں کوئی باطل بات نہیں کہتا۔
حالانکہ یہ دونوں روایات موضوع ہیں۔اول الذکر کو علامہ ابن الجوزی نے الموضوعات ص ۲۵۸ جلد ۱ میں،علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اللالی المصنوعۃ ص ۲۱۴ جلد ۱ میں،علامہ سخاوی نے المقاصد الحسنہ ص ۳۴۱ میں اورثانی کے بارے میں امام یحییٰ بن معین نے فرمایا یہ زنادقہ کی من گھڑت ہے۔)تنزیہ الشریعہ ص ۲۶۴ ج ۱)
غالباً انہی روایات اور شیخ ابوطالب کی اسی ترغیب کا نتیجہ ہے کہ حضرات صوفیاء کرام کی کتابوں میں ایسی روایات کی بھرمار ہے جو قرآن و حدیث کے مخالف نہیں معناً بھی صحیح ہیں،مگر محدثین کرام نے انھیں موضوع اور بے اصل قرار دیا اور وہی روایات تصوف کی جان ہیں جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔
دسویں مثال
احناف کے نزدیک ’’یمین‘‘ یعنی قسم اٹھانے والا اگر مذا ق میں زبردستی کسی کے سخت دباؤ کے نتیجہ میں یا بھول کر بھی قسم اٹھائے تواس قسم کا کفارہ ہے۔علامہ مرغینانی رحمہ اللہ نے اس کے متعلق حسب ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ امام شافعی اس میں ہمارے مخالف ہیں۔
’’ثلاث جدھن جد ھزلھن جد النکاح والطلاق والیمین‘‘
(ہدایہ کتاب الایمان ص ۴۷۹ ج ۱)
’’رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا تین باتوں کی سنجیدگی بھی سنجیدگی اور ٹھٹھا و مذاق بھی سنجیدگی ہے۔نکاح،طلاق اور یمین یعنی قسم۔‘‘
حالانکہ یہ روایت دواوین احادیث میں موجود ہے مگر اس میں ’’الیمین‘‘ کا لفظ