کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 57
مزلۃ اقدام و مضلۃ افہام ‘‘(ذیل الموضوعات للسیوطی ص ۲۰۲)
اگر اچھا کلام ہو اور وعظ بڑا بلیغ ہو،تاہم کسی کے لیے روا نہیں کہ وہ جس کلام کو اچھا سمجھے اس کا ایک حرف بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرے،اگرچہ وہ کلام فی نفسہ حق ہے،کیوں کہ رسول اﷲ ا نے جو کچھ فرمایا ہے وہ حق ہے،لیکن ہر حق بات رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کا فرمان نہیں،یہ بات خوب سمجھ لیجیے،جس کے نہ سمجھنے سے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں،عقل و فہم معطل ہو جاتی ہے۔‘‘
ہر اچھی اور حق بات کو آپ کی طرف منسوب کرنا وضاعین کا شیوہ تھا،مشہور کذاب اور زندیق محمد بن سعید المصلوب الاردنی کہا کرتا تھا:’’ اذا کان الکلام حسناً لم ابال اجعل لہ اسنادا‘‘ جب کلام اچھا ہوتا ہے تو میں اس کے لیے سند بنانے میں کوئی پرواہ نہیں کرتا (التہذیب ص ۱۸۵،۱۸۶ ج ۹)۔اس لیے علامہ علی قاری کا یہ سہارا بے کار ہے،موضوعات میں اس نوعیت کا کلام انھوں نے کئی مقام پر کیا لیکن اس سے حقیقت نہیں بدلتی۔
اس فکر کے بانی غالباً صوفی شیخ ابوطالب المکی ہیں جنھوں نے قوت القلوب (ص ۱۷۶،۱۷۷ ج ۱)۔جو امام غزالی کا احیاء العلوم میں بڑا ماخذ ہے۔کے باب’’ تفصیل الاخبار و بیان طریق الارشاد‘‘ میں کہا ہے کہ دواوین حدیث پر بلا بحث و نظر اعتماد درست ہے۔بشرطیکہ وہ قرآن پاک،حدیث صحیح اور اجماع امت کے منافی نہ ہو اور اسی فکر کے لیے بطور دلیل انھوں نے دو احادیث بھی بیان کر دیں۔
(۱) ’’ من بلغہ عن اللّٰہ فضیلۃ او عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعمل بہ اعطاہ اللّٰہ ثواب ذلک و ان لم یکن ما قیل‘‘
یعنی جسے اﷲ سبحانہ و تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کی طر ف سے کوئی فضیلت کا عمل پہنچے اور وہ اس پر عمل کرے تو اﷲ تعالیٰ اس کو ثواب عطا فرمائے گا۔اگرچہ حقیقت میں وہ یوں نہ ہو