کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 56
اصل لہ ‘‘ (نصب الرایۃ ص ۲ ج ۲)
یہ الفاظ دراصل امام مجاہد اور ابوعبیدہ بن مسعود کے ہیں،کسی صحابی کا بھی یہ قول نہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی کہا ہے : مرفوعاً یہ الفاظ ’’لم اجدہ‘‘ میں نے نہیں پائے(الدرایہ ص ۱۶۰ ج ۱) علامہ علی قاری رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں :
’’ قال الدارقطنی والنووی باطل لا اصلہ لہ‘‘(المصنوع ص ۸۹)
کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ اور نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ باطل ہیں،ان کی کوئی اصل نہیں۔اسی طرح انھوں نے اسے الموضوعات الکبیر ص ۷۸ میں بھی ذکر کیا ہے۔نیز ملاحظہ ہو: المقاصد الحسنہ ص ۲۶۵،البنایۃ ص ۲۹۴ ج ۲،فتح القدیر ص ۲۲۹ ج ۱،الفوائد المجموعہ للشوکانی ص۲۸،التذکرہ للزرکشی ص۶۶ تذکرۃ الموضوعات للفتنی ص ۳۸ اللؤلؤ المرصوع فیما لا اصل لہ أو بأصلہ موضوع ص۱۱۰،کشف الخفاء (ص ۳۶ ج ۲)،تمییز الطیب رقم:۷۸۶ وغیرہ۔
بلاشبہ علامہ مناوی نے تبیین الحقائق میں ابن مخلد کے حوالہ سے اسے ذکر کیا مگر اس سے اس کے باطل اور موضوع ہونے کی نفی نہیں ہوتی۔علامہ علی قاری نے الاسرار میں فرمایا ہے کہ :’’و ان کان باطلا لکنہ صحیح المعنی‘‘یہ روایت گو باطل ہے مگر یہ معنی و مفہوم کے اعتبار سے صحیح ہے،بجا فرمایا کہ معنوی اعتبار سے دن کی نماز میں سوائے جمعہ و عیدین کے اونچی آواز سے قراء ت نہیں،مگر کیا جو بات معناً صحیح ہو اسے خوب صورت الفاظ کا جامہ پہنا کر نبی ا کی طرف منسوب کرنا درست ہے ؟ علا مہ المزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’و ان کان الکلام الذی فیھا حسناً ومواعظھا مواعظ بلیغۃ،فلیس لاحد ان ینسب حرفاً یستحسنہ من الکلام الی الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم،و ان کان ذلک الکلام فی نفسہ حقاً،فان ما قالہ الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم حق،ولیس کل ما ھو حق قالہ الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فلیتأمل ھذا الموضع،فإنہ