کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 51
کو بھی روایت نہیں ملی۔ہمارے اصحاب ثقہ ہیں اور وہ ایسی روایت سے استدلال نہیں کرتے جو ان کے نزدیک ثابت نہ ہو‘‘ یہی کچھ انھوں نے النبایہ (ص ۲۵۸ ج ۲) میں کہا ہے۔ مگر’’ہمارے اصحاب ‘‘ کے استدلال کی پوزیشن آپ دیکھ رہے ہیں بجز حسن ظن کے اس کی اور کوئی حیثیت نہیں۔علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ: جب کتب احادیث میں اس کاوجود ہی نہیں تو صرف حسن ظن کی بنا ء پر اس کااعتبار کیوں کر کیا جا سکتا ہے۔ان کے الفاظ ہیں : ’’فانہ ما لم یوجد سند اثر ابن عباس و ابن الزبیر فی کتاب من کتب الحدیث المعتبرۃ کیف یعتبر بہ بمجرد حسن الظن بالناقلین مع ثبوت خلافہ عنہما بالاسانید العدیدۃ ‘‘ ’’یعنی جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے اثر کی سند معتبر کتب احادیث میں سے کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی تو ناقلین پر صرف حسن ظن کی وجہ سے اس کا اعتبار کیوں کر کیا جا سکتا ہے خصوصاً جب کہ ان سے متعدد اسانید سے اس کے برعکس (رفع الیدین کرنا) منقول ہے۔‘‘ (التعلیق الممجد ص ۸۹)۔ علامہ عینی رحمہ اللہ کا اپنے ’’اصحاب‘‘ پر یہ اعتماد اسی مقام پر ہے یا دوسری بے اصل روایات پر بھی ؟ قارئیں ابھی پڑھ آئے ہیں کہ ان روایات کے بارے میں تو علامہ عینی کو اپنے اصحاب پر قطعاً اعتماد نہیں،آخرکیوں ؟ حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ بھی حضرت ابن الزبیر رضی اللہ عنہ کے اسی اثر کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’ لم یوجد لہ اصل عند المحدثین ‘‘(تنویر العینین ص ۱۸) ’’کہ محدثین کے ہاں اس کی کوئی اصل نہیں ‘‘ موضوع حدیث کی چھٹی مثال علامہ مرغینانی رحمہ اللہ نے نماز میں رکوع کو جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع