کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 50
حالانکہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے اپنی اصطلاح کے مطابق اسے ’’غریب‘‘ کہا ہے۔ (نصب الرایہ ص۳۹۲ ج ۱) اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ لم اجدہ ‘‘(الدرایہ ص ۱۴۹ ج ۱) اسی قسم کا ایک اثر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی نقل کیا جاتا ہے۔ان دونوں کے بارے میں حافظ ابن جوزی ’’التحقیق‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’ حدیث ابن عباس و ابن الزبیر لا یعرفان اصلاً و المحفوظ عنہما الرفع ‘‘ (التحقیق :ص ۳۳۴ ج ۱) ’’کہ حدیث ابن عباس اور ابن زبیر قطعاً معروف نہیں بلکہ ان دونوں سے اس کے خلاف رفع یدین کرنا ثابت ہے۔‘‘ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے بھی ابن جوزی کے حوالہ سے یہی کچھ نقل کیا ہے۔ان کے الفاظ ہیں : لا یعرفان اصلاً و انما المحفوظ عن ابن عباس و ابن الزبیر خلاف ذٰلک۔‘‘ (نصب الرایۃ ص ۳۹۲ ج ۱،الدرایہ ) بلا شبہ عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما اور عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ رفع یدین کرنا ثابت ہے۔تفصیل کے ملاحظہ فرمائیں : جزء رفع الیدین مع جلاء العینین (ص ۷۹۔۱۲۹) مسائل امام احمد (ص ۲۴۴ ج ۱) بروایت ابنہ عبد اللّٰہ ،امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی ان کا مذہب رفع الیدین کرنا ہی بیان کیا ہے۔ملاحظہ ہو،جامع ترمذی مع التحفہ (ص ۲۱۹ ج ۱) نیز شرح السنہ للبغوی رحمہ اللہ (ص ۲۳ ج ۳)۔ اس حقیقت کے برعکس ایک بے اصل روایت ان کی طرف منسوب کرنا اور اس پر دعویٰ کی بنیاد کھڑی کرنا عجیب تر نہیں تو اور کیا ہے؟ صاحب ہدایہ اور ہدایہ کے شارح پر اس قدر افسوس نہیں کہ ان کا تساہل معروف ہے۔لیکن علامہ عینی رحمہ اللہ پر تعجب ہے کہ یوں تو بخاری شریف کی شرح لکھتے ہیں،پھر اس کی حدیث کی تردید میں ایک بے اصل اور موضوع روایت سے استدلال کرتے ہیں۔انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ یہی نہیں بلکہ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کی تردید میں یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ: ’’اگر انھیں روایت نہیں ملی تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہمارے اصحاب