کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 49
شیخ عبدالحق دہلوی نے ’’ العنایہ‘‘ ہی کے حوالہ سے حدیث(مدراج النبوۃ ص ۴۱۹ ج ا،در شرح سفر السعادۃ ص ۶۶) میں بھی نقل کی ہے۔شیخ عبد اللطیف سندھی نے ذب ذبابات الدراسات ص ۶۱۴ ج ۱ میں اسے نقل کیا ہے۔اور یہی روایت ماضی قریب میں چھپنے والی ایک کتاب ’’شرعی فیصلے‘‘ میں بھی درج کی گئی،یہ کتاب مختلف فتاویٰ کا مجموعہ ہے،ان فتاویٰ میں سے ایک فتویٰ کا نام ’’نظام اسلام‘‘ ہے،اس کے مختلف سوالات میں سے ایک سوال رفع الیدین کے بارے میں ہے،اس کے جواب میں صفحہ۲۸۹،۲۹۰،۴۰۱ میں یہ روایت درج ہے،اور خیر سے اس فتویٰ ’’نظام اسلام‘‘ کی تصدیق و تائید میں ۸۵ علمائے احناف کے دستخط بھی ہیں۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے ایضاح الادلہ (ص۱۷) میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے نسخ رفع الیدین کی دلیل قرار دیا ہے۔ [1]
[1] بقیہ )(اس جاہل نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ مصنف کی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مراد کنانہ بن عباس ہے،یہ دو اعتبار سے غلط ہے۔اولاً :اس لیے کہ جب مطلقاً ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا ا جائے تواس سے مراد صرف عبداﷲ بن عباس ہوتے ہیں،اگر کنانہ مراد لیتے تو اسے واضح طور پر بیان کرتے۔ثانیاً:صاحب ہدایہ کی یہ عادت ہی نہیں کہ حدیث بیان کرتے ہوئے صحابی کے بغیر تابعی کا ذکر کرتے ہوں،لہٰذا یہ ان کے اسلوب کے بھی خلاف ہے۔‘‘ یہی بات علامہ عینی رحمہ اللہ نے کہی ہے کہ: ’’جنھوں نے یہاں یہ عذر پیش کیا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مراد کنانہ بن عباس رحمہ اللہ ہیں تو یہ بالکل غلط ہے۔‘‘ علامہ لکھنوی رحمہ اللہ انہی کے حوالہ سے حاشیہ ہدایہ میں لکھتے ہیں : ’’واعتذر بعضھم بان مرادہ کنانۃ ابن عباس وھو خطأ۔۔الخ‘‘ اور یہی کچھ علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے ’’مزیلۃ الدرایۃ ‘‘ (ص ۱۳)اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’الدرایہ‘‘ (ص ۲۰ ج ۲) میں کہا ہے۔لہٰذا جس طرح ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما ‘‘ مراد لینا غلط ہے اور صاحب ہدایہ کے اسلوب اور فقہاء و محدثین کے طریقہ کے مخالف ہے اسی طرح ’’ابن الزبیر‘‘ سے مراد ’’عباد بن زبیر ‘‘ تابعی مراد لینا بھی مولیٰنا عبدالعزیز مرحوم وغیرہ کا وہم اور غلط سہارا ہے جو صاحب ہدایہ کے اسلوب کے منافی اور فقہاء و محدثین کے اصول کے مخالف ہے۔