کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 48
بن الزبیر راٰی رجلاً [1]..... الخ۔‘‘
[1] ’’نصب الرایہ‘‘ کے حاشیہ میں مولانا عبدالعزیز مرحوم لکھتے ہیں : جب مطلقاً ابن الزبیر کہا جائے تو مراد عبداﷲ بن زبیر ہوتے ہیں اور ان کی حدیث کہیں نہیں ملتی۔شاید صاحب ہدایہ کا مقصد عباد بن الزبیر ہیں،حالانکہ علامہ عینی رحمہ اللہ وغیرہ کی تصریح اس کے برعکس ہے،پھر عباد بن زبیر کی روایت مرفوع مرسل ہے،مگر زیر نظر روایت سے جو نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے اس کا سیاق ہی اس سے مختلف ہے۔عباد رحمہ اللہ کی روایت کے لیے دیکھیے (نصب الرایہ ص ۴۰۴ ج ۱)۔ چلیے! بالفرض مراد عباد بن زبیر ہیں تو بھی اسے ’’ابن الزبیر ‘‘کہنا بہرحال غلط ہے۔کیوں کہ جب مطلقاً ابن زبیر رضی اللہ عنہماکہا جائے تو مراد عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہما ہوتے ہیں۔لیکن یہی ایک مقام نہیں جہاں بقول مولانا عبدالعزیز مرحوم،عباد بن زبیر کو عبداﷲ بن زبیر سمجھ لیا گیا ہے بلکہ کتاب الحج،باب الاحرام کے تحت،’’مشعر الحرام‘‘ میں دعا کا ذکر کرتے ہوئے صاحب ہدایہ نے لکھا ہے: ’’ روی فی حدیث ابن عباس‘‘(الھدایہ ص ۲۴۸ ج ۱) کہ اس بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث مروی ہے۔‘‘ علامہ عبدالقادر قرشی لکھتے ہیں کہ: ’’فقہاء اور محدثین کی اصطلاح یہ ہے کہ جب مطلقاً ابن عباس رضی اللہ عنہما کہا جائے تو اس سے مراد حضرت عبداﷲ بن عباس ہوتے ہیں مگر یہاں وہ مراد نہیں،بلکہ کنانہ بن عباس بن مرداس السلمی مراد ہیں۔فھذا الاطلاق لیس بجید لہٰذا یہاں مطلقاً ابن عباس رضی اللہ عنہما کہنا درست نہیں۔پھر اس میں عبداﷲ بن کنانہ اور اس کا باپ کنانہ دونوں کو امام بخاری رحمہ اللہ اور ابن حبان رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔اس لیے یہ حدیث ان کی بنا پر ضعیف ہے۔‘‘ (کتاب الجامع ص ۴۳۸ ج ۲) غور فرمائیے! یہاں بھی بقول عبدالقادر قرشی رحمہ اللہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کنانہ بن عباس مراد لینا صاحب ہدایہ کا وہم اور فقہاء و محدثین کی اصطلاح کے خلاف ہے۔مگربات یہیں ختم نہیں ہو جاتی جب کہ بعضنے کہا ہے کہ یہ وہم نہیں بلکہ صاحب ہدایہ کی مراد ہی کنانہ بن عباس رحمہ اللہ ہیں۔علامہ زیلعی رحمہ اللہ ان کی تردید میں لکھتے ہیں۔ ’’ واعتذر ھذا الجاھل بان المصنف انما اراد بابن عباس کنانۃ بن عباس بن مرداس ھذاخطأ من وجھین احدھما ان ابن عباس اذا اطلق فلا یراد بہ الا عبد اللّٰہ بن عباس فلو اراد کنانۃ لقیدہ،الثانی : ان المصنف لیس من عادتہ ان یذکر التابعی دون الصحابی عند ذکر الحدیث و لا یلیق بہ ذٰلک۔(نصب الرایۃ ص ۷۲ ج ۳)((جاری ہے)