کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 46
اعتماد کیا ؟ قطعاً نہیں،وہ تواس کے باوصف ’’غریب مرفوعاً‘‘ فرماتے ہیں۔اس لیے مسند رزین سے اس کا وجود یا اس کا قابل اعتبار ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔ امام رزین رحمہ اللہ جیسا کہ عرض کیاچھٹی صدی کے اندلسی محدث ہیں۔ان کی ’’مسند‘‘ کا درجہ استناد کیسا ہے یہ بات بجائے خود بحث طلب ہے۔ ’’الوضوء علی الوضوء نور علی نور‘‘ کے الفاظ سے بھی ایک روایت فقہاء و صوفیا کرام کے ہاں معروف ہے،یہ روایت بھی امام رزین نے مسند میں ذکر کی،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا جیسا کہ المقاصد الحسنہ ص ۴۵۱ میں علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے بلکہ علامہ العراقی رحمہ اللہ نے احیاء العلوم کی تخریج المغنی (ص۱۴۰ ج ۱) باب فضیلۃ الوضوء میں فرمایا: لم اجد لہ اصلاً علامہ محمد طاہر فتنی رحمہ اللہ نے بھی مجمع البحار (ص ۵۱۱ ج ۳) میں فرمایا کہ ’’ لم یوجد‘‘ یہ حدیث کہیں نہیں پائی جاتی۔علامہ عبدالحی رحمہ اللہ لکھنوی فرماتے ہیں : ’’اشتھر عند الفقہاء وذکروہ فی کتبھم ولا اعتبار لہ عند المحدثین‘‘ (طفر الامانی ص ۲۵۲) ’’کہ یہ فقہاء کے ہاں مشہور ہے انھوں نے اسے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔مگر محدثین کے نزدیک اسی کا کوئی اعتبار نہیں۔‘‘ اس روایت کے بارے میں مزید ملاحظہ ہو۔الاسرار المرفوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ ص ۳۶۱ ‘ کشف الخفا ص ۴۴۷ ج ۲،اللؤلؤالمرصوع ص ۲۱۶ ‘ فتح الباری ص ۲۳۴ ج ۱ وغیرہ۔ غور فرمائیے! کیا ’’مسند رزین ‘‘ میں ہونے سے یہ قابل اعتبار ہو گئی؟ قطعاً نہیں،تو پھر زیر بحث روایت کا وجود مسند رزین کے حوالے سے معتبر کیسے بن گیا،جب کہ علامہ علی قاری رحمہ اللہ جیسے حنفی بزرگ نے تواسے موضوعات میں ذکر کیا ہے؟ موضوع حدیث کی پانچویں مثال رکوع کو جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کے بارے میں محدثین سے مقلدین احناف اور بعض مالکیہ کا اختلاف مشہور ہے۔اس سلسلے میں صاحب