کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 45
لدلائل النبوۃ للبیھقی مرفوعاً و لمسند رزین و لکنہ فی مصنف عبدالرزاق۔۔الخ (المقاصد:ص ۲۸) ’’زرکشی نے کہا ہے کہ ا س کا صحیحین کی طرف انتساب غلط ہے۔اسی طرح جس نے اسے دلائل النبوۃ بیہقی اور مسند رزین کی طرف منسوب کیا ہے (وہ غلطی پر ہے) بلکہ یہ مصنف عبدالرزاق میں موقوفاً ہے۔‘‘ یہی بات علامہ عجلونی رحمہ اللہ نے کشف الخفاء (ج۱ ص ۶۹) میں نقل کی ہے،اگر اس کا انتساب ’’رزین‘‘ کی طرف درست تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس سے زیر بحث روایت کی صحت ثابت نہیں ہوسکتی،چہ جائیکہ کہ اسے مشہور قرار دیا جائے،ممکن ہے کہ فقہاء کے ہاں یہ مشہورہو جیسے صوفیاء کرام کے نزدیک بہت سی بے اصل روایات مشہور ہیں،مگر اصول حدیث کے اعتبار سے یہ قطعاً مشہور نہیں۔ اہل علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ امام ابن اثیر رحمہ اللہ کا’’ جامع الاصول‘‘ میں ماخذ امام رزین بن معاویہ السرقسطی الاندلسی رحمہ اللہ المتوفی ۵۳۵ھ کی ’’التجرید للصحاح الستۃ‘‘ ہے جس میں انھوں نے ’’صحاح‘‘ کے علاوہ مزید روایات بھی ذکر کی ہیں اور یہ بھی انھی زوائد میں سے ہے جسے علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ نے ذکر کر دیا ہے،انہی زوائد کے بارے میں علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ ادخل فی کتابہ زیادات واھیۃ لو تنزہ عنھا لأجاد‘‘ ’’کہ انھوں نے اپنی کتاب میں واہی زیادات داخل کردی ہیں،اگر وہ اسے ان سے پاک رکھتے تو اچھا ہوتا۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء ص ۲۰۵ ج ۲۰)۔ لہٰذا محض رزین رحمہ اللہ کی طرف اس کے انتساب سے نہ اس روایت کی کوئی اصل ثابت ہو سکتی ہے اور نہ ہی ’’شہرت ‘‘ جس کا دعویٰ صاحب ِہدایہ نے کیا ہے۔ مزید برآں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ’’مسند رزین‘‘ میں اس کے وجود کا ’’انکشاف ‘‘ حافظ قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ نے کیا،اس کا ذکر تو علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے بھی علامہ السروجی رحمہ اللہ کے حوالہ سے نصب الرایہ (ص ۳۶ ج ۲)میں کیا،مگر اس کے باوجود کیا انھوں نے اس پر