کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 44
علامہ البانی رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں : ’’ لا اصل لہ مرفوعاً ‘‘ (سلسلۃ الضعیفۃ ص ۳۱۹ ج ۲) خلاصہ کلا م یہ ہے کہ صاحب ہدایہ نے جو اس کو مرفوع بلکہ مشہور قرار دیا ہے یہ ان کا قطعاً وہم ہے،یہ حدیث نہیں،مرفوعاً اس کی کوئی سند نہیں ‘ بلکہ علامہ علی قاری رحمہ اللہ نے اسے موضوعات میں شمار کیا ہے،علامہ زیلعی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ غریب مرفوعاً ‘‘ (نصب الرایۃ ص ۳۶ ج ۲) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ لم اجدہ مرفوعاً ‘‘ (الدرایۃ ص ۱۷۱ ج ۱) ’’کہ میں نے اسے مرفوعاً کہیں نہیں پایا۔‘‘ اسی روایت پر حافظ قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ نے استدراک کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ ذکرہ رزین العبدری من حدیث حذیفۃ و عبسۃ نقلہ ابن الاثیر فی جامع الاصول فی المواعظ والرقائق‘‘ (منیۃ الالمعی ص ۲۶،غنیۃ لاالمستلی ص ۵۲۳) کہ اسے رزین عبدری رحمہ اللہ نے حضرت حذیفہ رحمہ اللہ اور عبسہ رحمہ اللہ سے ذکر کیا ہے۔جیسا کہ ابن اثیر نے جامع الاصول کے باب المواعظ والرقائق میں ذکر کیا ہے۔ بلکہ علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ کے بعد صاحب مشکوۃ نے (ص ۴۴۴ ) اور علامہ المناوی رحمہ اللہ نے کنوز الحقائق (ص ۱۱ ج ۱) میں بھی رزین کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ بلاشبہ جامع الاصول (ص ۱۶ ج ۱۱) میں حذیفہ بن الیمان رضی اﷲعنہ سے یہ روایت منقول ہے،عبسہ سے نہیں،یہ بات تو بجائے خود غور طلب ہے کہ ’’عبسہ‘‘ صحابی کون ہے؟ غالباً صحیح عنبسہ رضی اللہ عنہ ہے مگر جامع الاصول میں بہرحال ان کے واسطہ سے اس روایت کا ذکر نہیں،لیکن علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے رزین کی طرف اس کے انتساب کو بھی وہم قرار دیا ہے،چنانچہ ان کے الفاظ ہیں : ’’ قال الزرکشی عزوہ للصحیحین غلط و کذا من عزاہ