کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 43
شہرت ثابت کریں اور اگر یہ شہرت زبان زد عام کے معنی میں ہے تو کیا ہر ایسی حدیث قابل اعتماد ہوتی ہے؟بلا ریب یہ حدیث علامہ السرخسی نے المبسوط (ج ۱ ص ۱۸۰) میں اور دوسرے فقہاء نے بھی ذکرکی ہے۔
حالانکہ یہ قطعاً حدیث نہیں بلکہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما کا قول ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے۔چنانچہ حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
’’ ففی الھدایۃ حدیث مشھور قال ابن الھمام لا یثبت رفعہ فضلا عن شھرتہ والصحیح انہ موقوف علی ابن مسعود‘‘
(الموضوعات الکبیر ص ۲۷)
’’ہدایہ میں ہے کہ یہ مشہور حدیث ہے۔ابن ہمام رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ا س کا مرفوع ہونا ثابت نہیں چہ جائیکہ یہ مشہور ہو۔صحیح یہ ہے کہ یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا قول ہے۔‘‘
علامہ ابن ہمام کا قول فتح القدیر صفحہ۲۵۵ جلد۱ میں دیکھا جاسکتا ہے۔علامہ عینی بھی لکھتے ہیں کہ یہ مرفوع نہیں،موقوف ہے (البنایۃ ج ۲ ص ۳۴۲)۔علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں :’’ انہ لیس بمشہور لیس بمرفوع أیضاً بل اثر‘‘ (العرف الشذی ص ۳۲۵)کہ صاحب ہدایہ نے اسے مشہور حدیث کہہ دیا ‘ یہ مشہور نہیں بلکہ یہ مرفوع بھی نہیں ‘ یہ تو اثر ہے۔
اگر صاحب ہدایہ نے اسے مشہور کہہ دیا ہے تو کیا ہوا ‘ اس سے بڑھ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض نے تو اس کا انتساب بخاری اور مسلم کی طرف بھی کیا ہے۔
علامہ زیلعی فرماتے ہیں :
’’ایک جاہل نے اس کا انتساب امام بیہقی کی دلائل النبوۃ کی طرف بھی کیا ہے‘ مگر اس میں نہ یہ مرفوعاً مروی ہے نہ موقوفاً‘‘
ملاحظہ ہو: نصب الرایہ ص ۳۶ جلد ۲ ‘ المقاصد الحسنہ ص ۲۸‘ کشف الخفاء ص ۶۹ جلد ۱ ‘ فتح القدیر ص ۲۵۵ جلد ۱،غنیۃ المستلی ص ۵۲۳۔