کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 42
اور دو رکعتوں پر اکتفا کرنے والا اس وعید کا مصداق ہے۔(معاذاﷲ) حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اسی حدیث پر’’ الرکعتان قبل الظہرباب قائم کرکے اس کے جواز کی طرف اشارہ کیا ہے۔امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ آنحضورا عموماً چاررکعتیں پڑھتے اور کبھی دو پر بھی اکتفاء کرتے‘‘ علامہ کاشمیری نے ان کی اس رائے سے اتفاق کیا ہے اور فرمایا:’’قول ابن جریر ھو الصواب فانہ لا یمکن انکاراحدھما‘‘ کہ ابن جریر کا قول ہی درست ہے۔دونوں کا انکار ممکن نہیں۔(العرف الشذی ص ۱۸۸) نیزدیکھیے فیض الباری (ص۴۲۷‘ ج ۲) علامہ بنوری مرحوم رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں : ’’ والحق ما قال ابن جریر الطبری من ثبوت کلتا الصورتین و ان الاربع اکثر‘‘ (معارف السنن: ص۱۰۴ ج ۴) ’’حق وہی ہے جو ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے کہا کہ دونوں صورتیں ثابت ہیں اور اکثر عمل چار پر تھا۔‘‘ اب کیا ہدایہ کی ’’اس حدیث‘‘ کی بناء پر دو رکعتیں پڑھنے والے کو اس وعید کا مصداق ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اور کیا یہ اس حدیث کی معارض نہیں ؟ یقینا معارض ہے۔پھر یہ ہے کیسی؟ جس کی نہ کوئی سند ‘ نہ ثبوت۔ ۴۔ایک اور موضوع حدیث ہدایہ کے باب الامامۃ میں مصنف نے ایک حدیث یوں بیان کی ہے: ’’ اخروھن من حیث اخرھن اللّٰہ ‘‘ (ہدایہ: ص۱۲۳ج۱) اور دو صفحہ بعد اسی حدیث کے بارے میں انھوں نے کہا: ’’ و انہ من المشاھیر‘‘ (ہدایہ : ص ۱۲۵ج ۱) ’’کہ یہ مشہوراحادیث میں سے ہے۔‘‘ اب اس کی ذمہ داری تو علماء احناف پر ہے کہ اصطلاح حدیث کے مطابق اس کی