کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 41
مگر یہ حدیث کی کسی کتاب میں نہیں،علامہ زیلعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ غریب جداً ‘‘ (نصب الرایۃ: ص ۱۶۲ ج ۲)
کہ یہ بہت ہی غریب ہے۔
اسی کے بارے میں حافظ ابن حجر نے کہا ہے:
’’ لم اجدہ‘‘(الدرایۃ :ص ۲۰۵)
میں نے اسے کہیں نہیں پایا۔
علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ لیس لہ أصل‘‘ اس کی کوئی اصل نہیں (البنایۃ ج ۲ ص ۵۷۷)
علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ انھوں نے اس حدیث کے بارے میں سوا ل کے جواب میں فرمایا:’’ ’’لا اصل لہ‘‘(ذیل اللآلئ ص ۲۰۴) علامہ سیوطی رحمہ اللہ کا اسے اللآلئ کی ذیل میں ذکرکرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بھی اسے بے اصل اور موضوع قرار دیتے ہیں۔
مزید برآں یہ بے اصل اور موضوع حدیث تو صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے۔چنانچہ صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم سے دس رکعتیں محفوظ کی ہیں۔
’’ رکعتین قبل الظھر۔۔۔الخ‘‘
’’ دو رکعتیں ظہر سے پہلے۔۔۔الخ‘‘
بلاشبہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم سے ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھنا بھی صحیح بخاری شریف ہی سے ثابت ہے مگر ائمہ حدیث نے کہا ہے کہ دونوں حدیثیں مختلف احوال پر محمول ہیں،عموماً آپ چاررکعتیں پڑھتے‘ اور کبھی مسجد میں دورکعتوں پر ہی اکتفاء فرماتے،لہٰذا دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔امام شافعی رحمہ اللہ تواسی روایت کی بنا پر ظہر سے پہلے دو رکعت کی سنیت کے قائل ہیں (مرعاۃ :ص ۱۴۲ ج ۲) لیکن ہدایہ کی حدیث نے تو اس طرح حد بندی کر دی کہ ظہر سے پہلے چار رکعتیں نہ پڑھنے والا قیامت کے روز شفاعت سے محروم رہے گا