کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 40
’’علامہ دمیری اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں۔اسی طرح علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے کہا ہے او ر علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس پر سکوت کیا ہے۔‘‘
المصنوع (ص ۹۲) میں بھی علامہ علی قاری رحمہ اللہ نے اس کو ذکر کیا ہے‘ مگر علامہ سیوطی رحمہ اللہ کے سکوت کا ذکر نہیں کیا اور اس کے ذکر کا فائدہ بھی کیا جب کہ وہ حاطب اللیل ہیں اور حافظ عسقلانی رحمہ اللہ وغیرہ کی تصریحات نے اس کی حقیقت کو طشت از بام کر دیا ہے۔علامہ سخاوی نے المقاصد الحسنہ (ص ۲۸۶)،علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے الفوائد المجموعہ (ص ۲۸۶) میں اسے ذکر کیا ہے۔اور حافط ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ کا کلام نقل کیا ہے۔بلکہ خود علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے الدرر المنتثرہ‘‘ میں اسے لا اصل لہ کہا ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’لا اصل لہ باتفاق العلماء‘‘ (سلسلۃ الضعیفہ رقم:۴۶۶)
’’ علماء کا اتفاق ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں۔‘‘
بعض اکابرعلماء مثلاً :امام رازی رحمہ اللہ اورعلامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ وغیرہ نے اس حدیث کا ذکر کیا ہے‘ لیکن اساطین حدیث کا انکاار اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی کوئی قابل اعتبار سند نہیں،ان شاء اﷲ کسی اور فرصت میں اس پر ہم تفصیلاً لکھیں گے۔وبیدہ التوفیق۔۔!
الغرض صاحب ہدایہ نے یہاں جس روایت سے استدلال کیا ہے‘ صحیح یا حسن تو کجا ائمہ فن نے اسے موضوع اور بے اصل قرار دیا ہے۔
۳۔ہدایہ کی ایک اور موضوع حدیث
اسی طرح صاحب ہدایہ نے ایک حدیث یوں نقل کی ہے:
’’ من ترک الاربع قبل الظھر لم تنلہ شفاعتی‘‘
(ہدایہ ص ۱۵۳‘ باب ادراک الفریضہ)
’’جو ظہر سے پہلے چار رکعتیں چھوڑ دیتا ہے‘ اسے میری شفاعت حاصل نہیں ہوگی‘‘