کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 38
الدین سنبھلی لکھتے ہیں : ’’اس حدیث کو اگرچہ صاحب ہدایہ نے نقل کیا ہے مگر یہ بے اصل اور غیر ثابت ہے۔چنانچہ شراح ہدایہ نے اس کو واضح کر دیا ہے اور مولانا عبدالحی رحمہ اللہ نے بھی مقدمہ عمدۃ الرعایہ اور حاشیہ ہدایہ میں اس کی تصریح فرما دی ہے۔ملا علی قاری رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں : لا اصل لہ (دارالعلوم ص ۳۶ اکتوبر۱۹۶۰ء)۔ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے اپنی مخصوص اصطلاح کے مطابق نصب الرایہ (ص ۲۶ ج ۲) میں اسے غریب کہا ہے۔[1]حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’لم اجدہ‘‘ (الدرایۃ ص ۱۶۸) حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ لم اقف علیہ بھذا اللفظ ‘‘ (المقاصد ص ۳۰۴) ’’ میں اس لفظ کے ساتھ اس پر مطلع نہیں ہوا۔‘‘ علامہ علی قاری رحمہ اللہ کے الفاظ میں : ’’لا اصل لہ ‘‘(الموضوعات الکبیر :ص۱۲۱‘ المصنوع: ص ۱۵۲) نیز دیکھیے کشف الخفاء ص۱۲۲ ج ۲۔ علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’لا اصل لہ‘‘ (سلسلۃ الضعیفۃ والموضوعۃ :ص۴۴‘ ج ۲) اس حدیث کے تحت علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم بھٰذا الحدیث‘‘ (فتح القدیر ص ۲۴۶ ج ۱) ’’کہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ ہی اس حدیث کو جانتا ہے‘‘ ہدایہ کے ایک دوسرے شارح علامہ عینی رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں : ’’ ھذا الحدیث غریب لیس فی کتب الحدیث‘‘
[1] علامہ زیلعی رحمہ اللہ کی مخصوص اصطلاح ہے کہ جو روایت انھیں نظر نہیں آئی‘ اسے غریب کہتے ہیں۔علامہ ابن الملقن نے بھی بعد میں یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔(منیۃ الالمعی ص ۹)