کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 37
’’ قد تکلم فیہ المحدثون حتی قال بعضھم انہ موضوع‘‘ (الفوائد البیھہ ص ۲۴) ’’محدثین نے اس میں کلام کیا ہے‘ یہاں تک کہ بعض نے اس کو موضوع کہا ہے۔‘‘ گویا اس کے ضعف پر تو اتفاق ہے اور بعض نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔علامہ سخاوی کا کلام ’’المقاصد الحسنۃ‘‘ (ص ۳۶۲) میں دیکھا جا سکتا ہے۔علامہ علی قاری حنفی رحمہ اللہ نے بھی ان کی ہی تائید کی ہے۔ملاحظہ ہو‘ المصنوع ص ۱۲۵‘ موضوعات کبیر ص ۱۰۳‘ نیز دیکھیے کشف الخفاء ص ۲۳۷ ج ۲،تنزیہ الشریعہ ص ۵۶ ج ۲۔یہ سب حضرات اس کے موضوع اور بے اصل ہونے پرمتفق ہیں۔ دوسری مثال صاحب ہدایہ اپنے مسلک کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’نماز میں امام وہ ہونا چاہیے جو سب سے زیادہ عالم ہو‘ اگر علم میں سب برابر ہوں تو امام وہ ہو جسے قرآن مجید زیادہ یاد ہو۔اگر اس میں بھی سب برابر ہوں تو جو ان سے زیادہ متقی و پرہیز گار ہو وہ نماز پڑھائے۔‘‘ اس کی دلیل بیان فرماتے ہیں : ’’ لقولہ علیہ السلام من صلی خلف عالم تقی فکانما صلی خلف نبی‘‘ (ھدایۃ باب الامامۃ ص ۱۲۲) ’’رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کے فرمان کی بنا ء پر کہ جس نے متقی عالم کے پیچھے نماز پڑھی اس نے گویا نبی کے پیچھے نما ز پڑھی۔‘‘ صاحب ہدایہ سے قبل علامہ سرخسی رحمہ اللہ نے بھی المبسوط(ص ۴۲ج ۱) میں اس مسئلہ پر یہی حدیث درج کی ہے۔اب اٹھیے اور ذخیرہ احادیث سے اسے ڈھونڈ نکالنے کی کوشش کیجیے،اس حدیث کے بارے میں دیوبند کے ترجمان ’’دارالعلوم ‘‘ میں مولانا محمد برہان