کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 35
انھوں نے ’’مکانوں کے کرایہ‘‘ کے بارے میں رفیع اﷲ شہاب صاحب کے جواب میں رقم فرمایا،شہاب صاحب نے ہدایہ کی ایک حدیث سے استدلال کیا تھا جس کے جواب میں مولانا موصوف لکھتے ہیں : ’’موصوف نے ہدایہ کے حوالہ سے جو حدیث نقل کی ہے اس کا وجود حدیث کی کسی کتاب میں نہیں اور ہدایہ کوئی حدیث کی کتاب نہیں کہ کسی حدیث کے لیے صرف اس کا حوالہ کافی سمجھا جائے،اہل علم جانتے ہیں کہ ہدایہ میں بہت سی روایات بالمعنی ہیں اور بعض ایسی بھی ہیں جن کا حدیث کی کتابوں میں کوئی وجود نہیں۔‘‘ (بینات ص ۲۸۔۲۹ ج ۴۰ شمارہ نمبر۲ صفر ۱۴۰۲ ھ ‘ دسمبر۱۹۸۱ء) ع ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا میرے حق میں یہی بات تو مولیٰنا جے پوری نے کہی ہے کہ ہدایہ کی احادیث ایسی بھی ہیں جن کا وجود نہیں اور محدثین نے انھیں بے اصل اور موضوع قرار دیا ہے۔لہٰذا آج بینات کے مضمون نگار اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کیوں کرتے ہیں ؟ اس ضروری تفصیل سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہر دور میں ہدایہ اور اس کے مصنف علامہ مرغینانی رحمہ اللہ کے بارے میں خود حنفی اکابرین کی کیا رائے رہی ہے،کیا ان تصریحات کے ہوتے ہوئے صرف اس بنیاد پر کہ اصحاب التراجم نے انھیں محدث اور حافظ لکھا ہے،ان کی بیان کردہ احادیث کو قابل استناد سمجھا جا سکتا ہے؟ صاحب ہدایہ اور چند بے اصل روایات ان اکابرین کی آراء کو بھی جانے دیجیے۔ہدایہ کو آج بھی اٹھا کر دیکھ لیجیے‘ آپ اس کی حرف بحرف تصدیق پائیں گے،بلکہ موضوع اور بے اصل روایات پر ان کا عمل بھی معروف زمانہ ہے۔چنانچہ صاحب ہدایہ کے تلمیذ رشید برہان الاسلام الزرنوجی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ وکان استاذنا شیخ الاسلام برھان الدین یوقف السبق و بدایتہ علی الاربعاء و کان یروی فی ذٰلک حدیثاً یقول قال