کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 34
میں اولیت دینا چاہی تو مولانا احمد رحمہ اللہ کو یہ بات ناگوار گزری،گفتگو شروع ہوئی تو شیخ الاسلام نے دوران گفتگو کسی فقہی مسئلہ میں ٹھوکر کھائی،مولیٰنا احمد رحمہ اللہ نے اس پر فوراً ٹوک دیا،امیر تیمور ان کی اس جرأت مندانہ معرفت اور اسلوب کلام پر نہایت متعجب ہوا اور بولا:’’ یہ صاحب ہدایہ کے پوتے ہیں ‘‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان سے مسائل فقہیہ میں غلطی نہیں ہو سکتی،مولانا احمد رحمہ اللہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر فرمایا:صاحب ِہدایہ نے جو ان کے دادا تھے ہدایہ کے کئی مقامات پر غلطی کی ہے،اگر ایک جگہ پر انھوں نے بھی ارتکاب خطا کر لیا تو کیا مضائقہ ہے۔‘‘ شیخ الاسلام نے سوال کیا:وہ کون سے مقامات ہیں جہاں صاحب ہدایہ نے غلطی کی ہے۔آپ کو اس کا ثبوت دینا چاہیے،مولیٰنا احمد رحمہ اللہ نے اپنے بیٹوں اور شاگردوں کو اشارہ کیا کہ وہ اس سلسلہ میں تقریر کریں اور ان مقامات کی وضاحت کریں جہاں صاحب ہدایہ نے ارتکاب خطا کیا ہے‘ لیکن امیر تیمور نے صاحب ہدایہ کے احترام اور شیخ الاسلام کی ناموس کا لحاظ کرتے ہوئے اس گفتگو کو کسی دوسرے موقع پر ملتوی کر دیا۔‘‘
(فقہاء ہند ج ۲ ص۵۰،اخبار الاخیارص ۱۴۵)
اسی طرح گیارہویں صدی کے نامور عالم شیخ عبدالحق دہلوی رحمہ اللہ ۱۰۵۲ھ بھی لکھتے ہیں کہ :
’’مصنف ہدایہ نے اکثر و بیشتر اپنے دعویٰ کی دلیل عقلی دلائل پر رکھی ہے۔’’ واگر حدیثے آوردہ نزد محدثین خالی از ضعفی نہ ‘ غالباً اشتغال آں استاد درعلم حدیث کمتر بودہ است۔۔الخ۔‘‘ اور اگر وہ حدیث لاتے ہیں تو وہ محدثین کے نزدیک ضعف سے خالی نہیں ہوتی،غالباً ان کا علم حدیث سے شغل بہت کم رہا ہے۔‘‘(شرح سفر السعادت ص ۲۳)
ماہنامہ بینات اور احادیث ہدایہ
اور پھر لطف کی بات یہ ہے کہ’’ بینات‘‘ میں ان دنوں ہدایہ کی احادیث میں جو موقف اختیار کیا گیا ہے خود ادارہ ’’بینات‘‘ اس سے کس حد تک متفق ہے،ا س کا اندازہ آپ ’’بینات‘‘ کے مدیر مکرم مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ اس بیان سے کر سکتے ہیں جو