کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 31
للزیلعی و ابن حجر‘‘ (ردع الاخوان ص ۵۸ فی مجموعۃ الرسائل الخمس) ’’کیا تم احیا ء علوم الدین کے مصنف (امام غزالی رحمہ اللہ ) کو نہیں دیکھتے؟ یہ جلیل القدر ہونے کے باوجود اپنی کتاب میں ایسی روایات لائے ہیں جن کی کوئی اصل نہیں،[1] پس ان پر اعتماد نہیں کیا جائے گا،جیسا کہ حافظ عراقی رحمہ اللہ کی تخریج احادیث کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے اور یہ صاحب ہدایہ رحمہ اللہ ہیں،باوجودیکہ احناف کے جلیل القدر علما ء میں ان کا شمار ہے،وہ بھی ہدایہ میں غریب اور ضعیف احادیث لاتے ہیں۔پس ان پر اعتماد نہیں کیا جائے گا،جیسا کہ علامہ زیلعی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تخریج احادیث ہدایہ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔‘‘ شیخ ابوغدہ رحمہ اللہ نے یہ ساری تفصیل نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ : ’’ یہ بحث اس قابل ہے کہ طالب علم اس بحث کے حصول کے لیے ایک ماہ کا سفر کرے،اﷲ تعالیٰ امام لکھنوی رحمہ اللہ پر رحمت فرمائے کہ انھوں نے اس بحث کا حق ادا کر دیا ہے۔‘‘ (حاشیہ الاجوبہ الفاضلہ ص ۳۴) اسی طرح شیخ ابوغدہ رحمہ اللہ نے المصنوع کے حواشی میں بھی فقہاء کے اس غیر محتاط رویہ کی پرزور تردید کی ہے۔چنانچہ ایک بے اصل روایت جو فقہائے حنفیہ و شافعیہ نے ذکر کی ہے اس کی حقیقت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ‘ علامہ سخاوی رحمہ اللہ اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ کے الفاظ سے بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’ و لا تغتر بذکر بعض الفقہاء من اجلۃ الحنفیۃ والشافعیۃ لھذہ الجملۃ: الأذان جزم والاقامۃ جزم والتکبیر جزم‘ حدیثاً
[1] علامہ تاج الدین السبکی نے ’’احیاء العلوم ‘‘ کی ان احادیث کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے جو بے اصل ہیں اور ان کی تعداد تقریبا ۹۴۳ ہے۔ملاحظہ ہو طبقات الشافعیہ (ج۴ ص ۱۴۵‘۱۸۱)۔ علامہ الطرطوشی فرماتے ہیں کہ سطح زمین پر جس قدر کتابیں ہیں ان میں سب سے زیادہ موضوع روایات ’’احیاء العلوم ‘‘میں پائی جاتی ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء ج ۱۹‘ ص ۴۹۵ نیز دیکھیے السیر ج ۱۹ ص ۳۳۴‘۳۳۹‘۳۴۲)