کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 30
وجہ نہیں۔ہمارے علمائے احناف نے صراحت کی ہے کہ تابعین کے بعد کی مراسیل بھی مقبول ہیں،بشرطیکہ ارسال کرنے والا ثقہ ہو،میں نے کہا مرسل وہ ہے جسے راوی حدیث بیان کرے۔اپنے اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے درمیان واسطہ چھوڑ دے،ورنہ لازم آئے گا کہ کوئی عامی اور بازاری آدمی بھی قال رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کہے تو اسے مرسل کہا جائے۔ارسال و انقطاع وغیرہ اسناد کی صفات ہیں۔جہاں کوئی سند ہی نہیں وہاں نہ ارسال ہے نہ انقطاع اور نہ ہی اتصال‘ بلکہ یہ صرف دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے نقل محض ہے اور یہ بات معلوم ومعروف ہے کہ صاحب ہدایہ رحمہ اللہ وغیرہ اکابرین فقہاء میں سے ہیں اور احیاء العلوم کے مؤلف امام غزالی وغیرہ بڑے عارفوں میں شمار ہوتے ہیں،مگر نہ وہ محدثین میں سے ہیں ‘ نہ ہی مخرجین میں سے،سے اگرچہ وہ فقہ و تصوف کے بڑے کاملین میں شمار ہوتے ہیں۔
غور فرمائیے! ہدایہ وغیرہ کتب فقہ میں وارد شدہ احادیث کو مرسل قرار د ینے کو خوش عقیدگی میں مقبول کہا گیا،مگر مولانا لکھنوی رحمہ اللہ نے ان کی یہ غلط فہمی دور کر دی ہے۔
شیخ ابوغدہ جو متصلب حنفی ہی نہیں بلکہ کوثری المشرب بھی ہیں نے’’الاجوبۃ الفاضلۃ‘‘ کے حاشیہ میں علامہ لکھنوی رحمہ اللہ کی پرزور تائید کی ہے اور عمدۃ الرعایہ کے حوالہ کے ساتھ ساتھ علامہ لکھنوی رحمہ اللہ کے رسالہ ’’ردع الاخوان عن محدثات آخر جمعۃ رمضان‘‘ سے طویل اقتباسات نقل کیے ہیں جس میں اس خوش فہمی کا ازالہ بھی ہے جس میں ہمارے مہربان مولانا نعمانی رحمہ اللہ وغیرہ مبتلا ہیں کہ:
’’ یہ روایات جلیل القدر علماء نے نقل کی ہیں اس لیے یہی ان کے قابل استناد ہونے کے لیے کافی ہے۔‘‘
علامہ لکھنوی رحمہ اللہ اس کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ الا تری الی نقل صاحب احیاء علوم الدین مع جلالۃ قدرہ او رد فی کتابہ احادیث لا اصل لھا فلم یعتبر بھا کما یظھر من مطالعۃ تخریج احادیثہ للحافظ العراقی وھذا صاحب الھدایۃ مع کونہ من اجلۃ الحنفیۃ اورد فیھا اخبارا ’’غریبۃ‘‘ وضعیفۃ فلم یعتمد علیھا کما یظھر من مطالعۃ تخریج احادیثھا