کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 29
بھی ہدایہ وغیرہ کتب فقہ کی واردشدہ احادیث کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ تلک الاخبار لا یعتبر بھا مالم یعلم سندھا او مخرجھا فان کثیرا من ارباب لفقاھۃ متساھلون فی الروایۃ فیردون فی کتبھم احادیث منکرۃ و ضعیفۃ وموضوعۃ من غیر تنقیح و توضیح ‘ ولذا خرج احادیث الھدایۃ الحافظ الزیلعی والحافظ ابن حجر و الّفاایضاً تخریجاً لأحادیث الکشاف ‘ والف قاسم بن قطلوبغا تخریج احادیث الاختیار شرح المختار فجزاھم اللّٰہ عنا خیر الجزاء حیث میزوا بین الصحیح و بین الضعیف و بین الحسن و بین السخیف و بین الموضوع و بین غیر الموضوع و قد الف الحافظ العراقی تخریجاً لاحادیث احیاء العلوم فنبہ ما فیہ من الموضوعات والواھیات ‘‘ (ظفر الامانی: ص ۳۴۲) کہ جب تک ان کی سند یا ان کا حوالہ معلوم نہ ہو تب تک وہ روایات معتبر نہیں کیوں کہ بہت سے فقہاء حدیث کے معاملے میں متساہل ہیں۔اپنی کتابوں میں بغیر تنقیح و تحقیق،منکر،ضعیف اور موضوع احادیث لے آتے ہیں،اسی لیے حافظ زیلعی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے احادیث ہدایہ کی تخریج کی،ان دونوں نے الکشاف کی بھی تخریج کی ہے،اور حافظ قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ نے ’’الاختیار شرح المختار‘‘ کی تخریج کی۔اﷲ تعالیٰ انھیں جزائے خیر عطا فرمائے کہ انھوں نے صحیح اور ضعیف حسن اور کمزور ‘ موضوع اور غیر موضوع کے درمیان فرق کر دیا ہے۔حافظ عراقی رحمہ اللہ نے احیاء العلوم کی تخریج کی اور اس میں انھو ں نے موضوع اور واہی روایات سے خبردار کیا۔‘‘ مولانا لکھنوی رحمہ اللہ نے اس کے بعد لکھا ہے کہ میری یہ بات میرے بعض ساتھیوں کو ناگوارمعلوم ہوئی۔انھوں نے کہا کہ فقہ کی ان کتابوں میں بلاسند مذکور یہ روایات مرسل ہیں اور مرسل احناف کے نزدیک حجت ہے،میں نے کہا مرسل تو وہ ہے جسے تابعی بیان کرے اور صحابی کا واسطہ چھوڑ دے،اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس تخصیص کی کوئی