کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 28
نقل الاحکام وحکم الحلال والحرام ‘ الا تری الی صاحب الھدایۃ من اجلۃ الحنفیۃ والرافعی شارح الوجیز من اجلۃ الشافعیۃ مع کونھما ممن یشار الیہ بالانامل و یعتمد علیہ الاماجدوالاماثل قد ذکرا فی تصانیفھما مالا یوجد لہ اثر عند خبیر بالحدیث یُستفسَر ‘ کما لا یخفی علی من طالع تخریج احادیث الھدایۃ للزیلعی و تخریج احادیث شرح الرافعی لابن حجر العسقلانی و اذا کان حال ھؤلاء الاجلۃ ھذا فما بالک بغیرھم من الفقہاء الذین یتساھلون فی ایراد الأخبار و لا یتعمقون فی سند الآثار‘‘ (الاجوبۃ الفاضلۃ ص ۲۹۔۳۰)
’’اسی بنا ء پرعلماء نے صاف کہہ دیا ہے کہ ان احادیث کا کوئی اعتبار نہیں جو فقہ کی بڑی بڑی کتابوں میں نقل کی جاتی ہیں۔جب تک ان کی سند ظاہر نہ ہو‘ یا محدثین کا اس پر اعتماد معلوم نہ ہو‘ گو ان کتابوں کے مصنفین بڑے مرتبہ کے فقیہ ہی کیوں نہ ہوں،جن پر احکام اور حلال و حرام کے مسائل بیان کرنے میں اعتماد کیا جاتا ہو‘ کیا ہدایہ کے مصنف کو نہیں دیکھتے جو جلیل القدر علماء احناف میں سے ہیں اور رافعی شارح الوجیز جو جلیل القدر علمائے شافعیہ میں سے ہیں،باوجودیکہ وہ دونوں ان اصحاب میں سے ہیں جن کی (عظمت کی بنا پر ان کی ) طرف اشارے کیے جاتے ہیں اور ان پر عالی مرتبہ لوگ اعتماد کرتے ہیں۔پھر بھی ان دونوں کتابوں میں ایسی روایتیں ہیں جن کا کوئی نشان حدیث جاننے والوں کے ہاں نہیں پایا جاتا،جیسا کہ اس شخص پر مخفی نہیں جس نے علامہ زیلعی رحمہ اللہ کی تخریج ہدایہ اور حافظ ابن حجر کی تخریج شرح رافعی کا مطالعہ کیا ہے۔جب ان جلیل القدر بزرگوں کا یہ حال ہے تو دوسرے فقہاء جو احادیث نقل کرنے میں متساہل ہیں اور آثار کی سند بیان کرنے میں تعمق اختیار نہیں کرتے ‘ ان کا کیا حال ہوگا۔‘‘
اسی طرح علامہ لکھنوی رحمہ اللہ مختصر السید الشریف الجرجانی کی شرح ’’ظفر الامانی‘‘ میں