کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 27
المشرقین فھل سمعت احداً من المحدثین والفقہاء تعرض واعتنی بھما‘‘ (حجۃ اللّٰہ البالغہ ج ۱ ص ۱۳۴)
’’اگر تم صریح حق چاہتے ہو تو مؤطا کا امام محمد کی کتاب الآثار اور قاضی ابویوسف رحمہ اللہ کی الامالی سے موازنہ کرلو،موطأ میں اور ان میں بعد المشرقین نظر آئے گا۔کیا تم نے کسی محدث یا فقیہ کو سنا ہے کہ اس نے ان دونوں کتابوں کی طرف توجہ دی ہو۔؟‘‘
اس حقیقت کے بعد یہ سمجھنا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ یا علامہ زیلعی رحمہ اللہ کو وہ کتابیں نہیں ملیں ‘ محض اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔
کیا علامہ مرغینانی نقل حدیث میں قابل اعتماد ہیں ؟
دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ صاحب ہدایہ کا شمار فقہاء ہی میں نہیں ہوتا بلکہ اصحاب تراجم نے انھیں حافظ اور محدث بھی قرار دیا ہے،لہٰذا وہ ناقابل احتجاج روایتوں کو اپنی کتاب میں درج کیوں کر کر سکتے ہیں ؟ مولیٰنا نعمانی اور ان کے شاگرد رشید نے اس دعویٰ کے لیے کہ علامہ مرغینانی رحمہ اللہ حافظ اور محدث بھی تھے قاضی محمود بن سلیمان الکفوی کی ’’اعلام الاخیار‘‘ کا حوالہ دیا ہے،حالانکہ قاضی صاحب موصوف خودحنفی المسلک تھے۔مولیٰنا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ کی ’’الفوائد البہیۃ فی تراجم الحنفیہ‘‘ بنیادی طو رپر اسی کتاب کا اختصار ہے۔اور اس کے صفحہ ۱۴۱ میں علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے صاحب ہدایہ رحمہ اللہ کے بارے میں وہی الفاظ نقل کیے ہیں جو مولانا نعمانی صاحب نے دراسات اللبیب کے حاشیہ میں ’’اعلام الاخیار‘‘ سے نقل کیے ہیں مگر اس سے جو نتیجہ مولانا نعمانی رحمہ اللہ نے اخذ کیا ہے‘ اس سے وہ متفق نظر نہیں آتے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے:
’’و من ھھنا نصوا علی انہ لا عبرۃ للاحادیث المنقولۃ فی الکتب المبسوطۃ مالم یظھر سندھا ‘ او یعلم اعتماد ارباب الحدیث علیھا ‘ و ان کان مصنفھا فقیھاً جلیلاً یعتمد علیہ فی