کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 26
قاعدے کی بنا پر کسی موضوع اور واہی روایت کو موضوع قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ’’الجامع الصغیر‘‘کے شارح علامہ مناوی رحمہ اللہ،حافظ سیوطی رحمہ اللہ کی اس تحقیق جدید سے متفق نظر نہیں آتے،بلکہ واشگاف الفاظ میں لکھتے ہیں :
’’قال السبکی و لیس بمعروف عند المحدثین و لم اقف لہ علی سند صحیح و لا ضعیف ولا موضوع‘‘(فیض القدیر ص ۲۱۲ ج ۱)
’’علامہ سبکی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ محدثین کے نزدیک معروف نہیں ‘ میں اس کی کسی صحیح‘ ضعیف اور موضوع سند پر مطلع نہیں ہو سکا۔‘‘
اب آئیے! یہ بھی دیکھ لیجیے کہ ’’متقدمین ائمہ احناف‘‘ کی وہ کون سی کتابیں ہیں جن کا ذکر یہ حضرات کرتے ہیں،چنانچہ مولیٰنا نعمانی رحمہ اللہ اور ان کے شاگردِ رشید نے حافظ قاسم بن قطلوبغا رحمہ اللہ کی’’ منیۃ الا لمعی فی مافات من تخریج احادیث الھدایۃ للزیلعی‘‘کے مقدمہ ( ص ۹) کے حوالہ سے لکھا ہے کہ وہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کی کتاب الخراج اور الامالی ‘ امام محمد رحمہ اللہ کی کتاب الاصل اور السیر،امام طحاوی،خصاف رحمہ اللہ،ابوبکر رازی رحمہ اللہ اور کرخی رحمہ اللہ کی تصانیف ہیں۔مقام غور ہے کہ حافظ قاسم رحمہ اللہ کو تو کتاب الاصل‘ الامالی لابی یوسف وغیرہ مل گئیں جن کی بنا پر انھوں نے نصب الرایہ کا تکملہ لکھ کر ہدایہ کے خادمین میں اپنا نام بھی درج کرا لیا۔مگر ان کے استاد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور ان سے پہلے علامہ زیلعی رحمہ اللہ کو وہ نہ مل سکیں،آخر کیوں ؟
کتاب الآثار اور الامالی کی حیثیت
اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ان کتابوں کا درجہ استناد ہی محدثین کے نزدیک محل نظر ہے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تخریج روایات میں ان سے اعتناء نہیں کیا۔
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی رحمہ اللہ مؤطا امام مالک کی افضلیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ ان شئت الحق الصراح فقس کتاب الموطأ بکتاب الآثار لمحمد والامالی لابی یوسف تجد بینہ و بینھما بعد