کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 25
نہیں۔کاش! وہ یہ بات کہنے کی بجائے خاموش رہتے۔ولیس ھو فیھا فلیتہ سکت۔
اندازہ کیجیے!یہ دونوں بزرگ ایک حدیث اور اس کے متعلقات ذکر کرنے میں کتنے اوہام کا شکار ہوئے۔امام ابوشامہ رحمہ اللہ المتوفی ۶۶۵ھ نے المؤمل للرد الی الامر الأ ول میں امام غزالی رحمہ اللہ وغیرہ فقہائے شافعیہ کے اس تساہل کا ذکر کیا ہے۔جسے مختصر المؤمل ص ۲۸ میں دیکھا جا سکتا ہے،جو مجموعہ رسائل منیریہ جلد دوم میں مطبوع ہے۔
کہاں تک نقل کروں،شائقین حضرات التلخیص الحبیر مطبوعہ ہند کے صفحات۹۸،۱۱۸،۳۵۳ ملاحظہ فرما ئیں۔جہاں انھوں نے امام الحرمین رحمہ اللہ،علامہ رافعی رحمہ اللہ اور علامہ غزالی رحمہ اللہ پر نقل روایات اور حدیث کے باب میں ان کی آراء پر نقد وتبصرہ کیا ہے تو کیا یہ تمام تعقبات ان ائمہ فقہاء پر اس کورانہ اعتماد کی اجازت دیتے ہیں جس کا ذکر علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی وساطت سے کیا گیا ہے۔
اسی طرح علامہ سیوطی رحمہ اللہ کا اختلاف امتی رحمۃ کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’ولعلہ خرج فی بعض کتب الحفاظ التی لم تصل الینا‘‘
’’کہ شاید یہ ان بعض کتابوں میں ہو جو ہم تک نہیں پہنچیں۔‘‘
اس کا منطقی نتیجہ تو یہ ہوا کہ بعض صحیح روایات ایسی بھی ہیں جو ضائع ہو گئی ہیں اور امت مرحومہ انھیں محفوظ نہیں رکھ سکی،جب دین محفوظ ہے اور وہ صحیح احادیث اسی دین کا حصہ ہیں تو پھر وہ احادیث غیر محفوظ کیوں ؟ اور دین کی حفاظت کیسی؟
کتنے تعجب کی بات ہے کہ’’ متقدمین ائمہ احناف‘‘کی کتابیں تو محفوظ نہ رہ سکیں اور’’ محدثین مابعد‘‘کی کتابیں باقی رہیں۔پھر یہ انداز انہی روایات کے متعلق کیوں ہے ؟ عین ممکن ہے کہ جن احادیث کو علامہ زیلعی رحمہ اللہ،علامہ ابن حجر رحمہ اللہ،علامہ سخاوی رحمہ اللہ،حافظ ابن جوزی رحمہ اللہ،علامہ علی قاری رحمہ اللہ وغیرہ نے ’’ لم اجدہ‘‘یا’’ لا اصل لہ‘‘کہا یا جنھیں انھوں نے موضوع قرار دے کر موضوعات میں درج کیا اور ان میں بعض ایسی بھی ہوں،جو زبان زد عام ہوں،وہ بھی ایسی کتابوں میں صحیح سند سے ثابت ہوں جو ہم تک نہ پہنچی ہوں۔بتائیے!اس