کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 23
’’وقع لامام الحرمین فی النھایۃ و تبعہ الغزالی فی الوسیط وھم عجیب فانہ قال ھذا الحدیث مروی فی الصحاح [1]
[1] (بقیہ حاشیہ)کے حوالے سے یہ حدیث مذکور ہے۔اس پر علامہ تفتازانی نے کچھ خفگی کا بھی اظہار کیا ہے مگر اس روایت کو بخاری کی روایت مانتے ہیں۔پھر سید السند نے علامہ تفتازانی کا جواب بھی اپنے حاشیہ میں دیا اور کہاکہ یہ بخاری کی حدیث ہے جس کا تمھیں انکار نہیں۔لہٰذا اس حدیث کی صحت کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کوا مام بخاری نے اپنی کتاب میں درج فرمایا۔غرض ان تینوں بزرگوں کے وقت تک یہ حدیث صحیح بخاری میں موجود تھی۔۔۔الخ (اعجاز القرآن ص ۲۳۴) اس روایت میں بیان کردہ یہ اصول کہاں تلک درست ہے اس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔امام بیہقی نے ’’المدخل‘‘میں اس پر اور اس باب کی روایات پر نقد کیا ہے۔جس کی ضروری تفصیل علامہ سیوطی رحمہ اللہ کے رسالہ ’’مفتاح الجنۃ فی الاحتجاج بالسنہ۔‘‘(ص ۳۹،۷۴) میں دیکھی جا سکتی ہے۔امام عبدالرحمٰن بن مہدی نے فرمایا ہے :یہ زنادقہ و خوارج کی گھڑی ہوئی روایت ہے۔اہل علم کے نزدیک یہ روایت آپ ا سے صحیح طو رپر ثابت نہیں۔(الموافقات للشاطبی:ج ۴ ص ۱۸) حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی اس موضوع پر نگارشات قابل مراجعت ہیں۔الصواعق المرسلہ ص ۴۳۷،۴۴۱ ج ۲) مگراندازہ کیجیے کہ اس قسم کی روایات کے سہارے کیا گل کھلائے جا رہے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے ائمہ و فقہاء کو کس طرح آڑبنایا جا تا ہے۔فاعتبروا یا اولی الابصار۔! اہل بدعت،اپنی بدعات کو سہارا دینے کے لیے عموماً ایک مرفوع روایت ’’ما راٰہ المؤمنون حسنا فھو عند اللّٰہ حسنا‘‘ذکر کرتے ہیں۔جب کہ دیوبندی علمائے کرام فرماتے ہیں کہ یہ روایت مرفوعاً ثابت نہیں۔ملاحظہ ہو ’’الجنۃ لأہل السنۃ‘‘ص ۱۶۲،راہ سنت ص ۱۱۳ وغیرہ۔حالانکہ امام محمد رحمہ اللہ نے بلاغاً اسے مرفوع ہی ذکر کیا ہے۔ملاحظہ ہو الموطأ امام محمد ص ۱۴۰ باب قیام شھر رمضان،حالانکہ یہ روایت قطعاً مرفوعاً ثابت نہیں،دیکھیے التعلیق الممجد ص ۱۴۰،نصب الرایہ (ج۴ ص ۱۳۳،سلسلۃ الضعیفہ ج ۲ ص ۱۷ حدیث نمبر۵۳۳)۔علامہ ابن نجیم لکھتے ہیں :’’ قال العلائی لم اجدہ مرفوعاً فی شیء من کتب الحدیث اصلاً ولا بسند ضعیف بعد طول البحث وکثرۃ الکشف والسوال و انما ھو قول عبد اللّٰہ بن مسعود موقوفاً (الاشباہ والنظائر ص ۱۲۶،۱۲۷ ج ۱) کہ علامہ العلائی نے کہا ہے کہ میں نے یہ روایت طویل بحث اور ورق گردانی اور علماء سے استفسار کے باوجود حدیث کی کسی کتاب میں ضعیف سند سے بھی نہیں دیکھی۔یہ حضرت عبداﷲ بن مسعود کا قول ہے: یہی کچھ علامہ ابن عابد ین نے نشر العرف فی بناء بعض الاحکام علی العرف‘‘میں علامہ العلائی سے نقل کیا ہے جسے رسائل ابن عابدین (ج۲ ص ۱۱۵) میں دیکھا جا سکتا ہے۔خلاصہ یہ کہ جب امام محمد رحمہ اللہ کی ذکر کردہ اس مرفوع معلق روایت کی کوئی اصل نہیں،تو متأخرین کی ایسی معلق روایات قابل اعتبار کیسے ہو سکتی ہیں۔