کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 22
۴۔اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حدیث ’’ من قاء و رعف و امذی‘‘پر بحث کے دوران بطور تنبیہ لکھتے ہیں : [1]
[1] بقیہ حاشیہ)(قاسم ابن قطلوبغا رحمہ اللہ نے تخریج اصول البزدوی میں صراحت کی ہے۔یہی روایت صدر الشریعۃ علامہ عبیداﷲ بن مسعود رحمہ اللہ المتوفی ۷۴۷ ھ صاحب شرح الوقایہ نے التوضیح (ص ۴۸۰طبع پشاور) میں ذکر کی اور علامہ سعد الدین مسعود التفتازانی رحمہ اللہ المتوفی ۷۹۲،۷۹۱ نے اس کی شرح التوضیح میں اس کو ذکر کرکے صحیح بخاری کی طرف منسوب کیا۔اور ساتھ یہ بھی نقل کر دیا ہے کہ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے کہا کہ:’’ انہ حدیث وضعتہ الزنادقۃ‘‘کہ یہ حدیث زندیقوں کی گھڑی ہوئی ہے۔بلکہ فخر الاسلام علامہ عبدالعزیز البخاری رحمہ اللہ المتوفی ۷۳۰ ھ نے اصول بزدوی کی شرح میں یہاں تک فرما دیا کہ ’’امام محمد بن اسماعیل رحمہ اللہ بخاری نے اپنی کتاب میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے،وہ اس فن کے امام ہیں۔’’ فکفی بایرادہ د لیلاً علی صحتہ ولم یلتفت إلی طعن غیرہ بعدہ‘‘لہٰذا ان کا اس روایت کو لے آنا اس کی صحت کی کافی دلیل ہے اور ان کے مقابلے میں کسی کا طعن قابل التفات نہیں۔(کشف الاسرار : ج ۳ ص ۱۰) اور یہی کچھ من و عن فصول الحواشی شرح اصول الشاشی ص ۲۸۸ میں فرمایا گیا ہے۔مگر حاشیہ التوضیح میں ہے: ’’و تعجب المرجانی بان ھذا من صاحب الکشف عجیب فانہ مع سعۃ اطلاعہ و تبحرہ فی الاصول و الفروع کیف صور عنہ ھٰذا القول السقیم أما اولاً فان ھذا الحدیث لیس بموجود فی صحیح البخاری و لیس یمکن أن یورد فیہ حدیثاً اتفق الحفاظ و اھل الشان علی ضعفہ و نکارتہ بل علی وضعہ‘‘علامہ المرجانی رحمہ اللہ نے اس پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ صاحب کشف الاسرار نے وسعت معلومات او ر اصول و فرع میں تبحر علمی کے باوجود یہ کمزور بات کیسے کہہ دی،یہ حدیث صحیح بخاری میں نہیں،اور یہ کیسے ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ ایسی روایت لائیں جس کے ضعف و نکارت بلکہ اس کے موضوع ہونے پر حفاظ حدیث متفق ہیں۔(حاشیہ التوضیح ص ۴۷۸۔۴۷۹ طبع پشاور) اس تفصیل کا مقصد صرف یہ تھا کہ بڑے بڑے اعیان سے اس قسم کے انتساب میں وہم ہوا ہے۔یہ حضرات فقہ و اصول کے بلاشبہ امام تھے مگر حدیث کے باب میں ان کا ایسا درجہ و مرتبہ نہیں کہ ان پر اعتبار کیا جائے مگر اس کے برعکس منکرین حدیث کا اسلوب بھی ملاحظہ فرمائیں کہ علامہ تمنا عمادی جو اسی گروہ کے سرغنہ تھے نے بڑی ڈھٹائی سے لکھا ہے:’’ یہ حدیث صحیح بخاری میں پہلے موجود تھی بعد کو یاران طریقت نے دیکھا کہ اس حدیث سے تو سینکڑوں حدیثیں غلط اور قابل رد ٹھہر جائیں گی۔اس لیے اس حدیث کو بخاری کے نسخے سے نکال پھینکا۔مگر قدیم کتابوں میں بخاری کے حوالے سے یہ حدیث موجود ہے۔چنانچہ توضیح و تلویح جو اصول فقہ حنفی کی نہایت مشہور و معروف کتاب ہے اور تقریباً تمام عربی مدارس کے نصاب تعلیم میں داخل ہے اس میں بخاری (جاری ہے)(