کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 21
’’ ادعی امام الحرمین فی النھایۃ ان ذکر نفی المطر لم یرو فی متن الحدیث و ھو دال علٰی عدم مراجعتہ لکتب الحدیث المشھورہ فضلاً عن غیرھا‘‘ (التلخیص طبع ہند: ص۱۳۱ج ۱،طبع پاکستان ص۵۰ ج ۲) ۳۔اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’تنبیہ‘‘کا عنوان قائم کرکے خبردار کرتے ہیں : ’’ قال الامام فی النھایۃ و تبعہ الغزالي في الوسیط و محمد بن یحیی فی المحیط روی البخاری ان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عدّ فاتحۃ الکتٰب سبع آیات و عدّ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم آیۃ منھا و ھو من الوھم الفاحش قال النووی و لم یروہ البخاری في صحیحہ ولا فی تاریخہ‘‘ (التلخیص ص ۸۸ ج ۱ طبع ہند ص ۲۳۳ ج ۱) ’’امام۔یعنی امام الحرمین۔نے نہایہ میں فرمایا ہے اور الوسیط میں امام غزالی رحمہ اللہ اور المحیط میں علامہ محمد بن یحییٰ نے ان کی پیروی میں کہا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ فاتحہ کی سات آیات قرار دیں اور بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کو اس کی ایک آیت قرار دیا،حالانکہ یہ وہمِ فاحش ہے۔امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نہ یہ روایت اپنی صحیح میں ذکر کی ہے اور نہ ہی اپنی تاریخ میں۔‘‘ [1]
[1] یاد ش بخیر۔۔! فخر الاسلام علامہ علی بن محمد البزدوی المتوفی ۴۸۲ھ نے بڑے وثوق سے فرمایا: ’’وقد قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم تکثر لکم الاحادیث من بعدی فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللّٰہ تعالٰی فما وافق کتاب اللّٰہ تعالٰی فاقبلوہ و ما خالف فردوہ‘‘(اصول بزدوی،باب بیان قسم الانقطاع ص ۱۷۵ ط نور محمد کراچی) اور بے شک نبی انے فرمایا ہے:کہ میرے بعد حدیثوں کی بڑی کثرت ہوگی۔جو حدیث میری طرف منسوب کرکے تمھارے سامنے روایت کی جائے اس کو کتاب اﷲ پر پیش کرو،اگراس کے موافق ہو تو قبول کرو اور اگر اس کے خلاف ہو تو رد کردو۔‘‘حالانکہ اس مفہوم کی تمام روایات ضعیف ہیں۔جیسا کہ حافظ(جاری ہے)(