کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 20
مولانا نعمانی اور ان کے تلمیذ رشید کے اس طرز استدلال اور انداز تکلم پر بجز اس کے ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں :’’ کبرت کلمۃ تخرج من افواھھم و ما تخفی صدورھم اکبر‘‘ آئیے! اس استدلال اور دفاع کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے علامہ کورانی نے حافظ سیوطی رحمہ اللہ کی وساطت سے جو کچھ نقل کیا ہے اولاً اس کا مدار ’’ بلغنی ان الحافظ ابن حجر۔۔۔الخ،،پر ہے کہ’’ مجھے یہ خبر پہنچی ہے۔‘‘یہ خبر دینے والا کون ہے؟ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے تو بہرحال یہ بات براہ راست نہیں سنی،الفاظ اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ثانیاً: خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا ’’التلخیص الحبیر‘‘میں جو انداز ہے اس سے بھی اس بات کی تردید ہوتی ہے جہاں انھوں نے متعدد مقامات پر علامہ رافعی رحمہ اللہ،امام الحرمین رحمہ اللہ اور علامہ غزالی رحمہ اللہ پر نقد کیا ہے۔مثلاً: ۱۔امام الحرمین نے حدیث ’’ کن عبد اللّٰہ المقتول و لا تکن عبداﷲ القاتل‘‘کے بارے میں کہا ہے کہ اسے حضرت حذیفہ رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے اور یہ صحیح ہے،مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ لا اصل لہ‘‘کہ اس کی کوئی اصل نہیں،بلکہ علامہ ابن الصلاح رحمہ اللہ سے بھی نقل کیا ہے کہ: ’’ لم اجدہ فی شیء من الکتب المعتمدۃ و امام الحرمین لا یعتمد فی ھذا الشان‘‘(التلخیص طبع ہند : ص ۳۶۳ ج ۴ طبع پاکستان ص ۴ ۸ج۴) ’’میں نے اسے قابل اعتماد کتابوں میں نہیں دیکھا اور امام الحرمین رحمہ اللہ پر اس عظیم الشان باب میں اعتماد نہیں کیا جائے گا۔‘‘ ۲۔صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ آنحضرت ا نے مدینہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نماز کو جمع کیا:’’فی غیر خوف و لا مطر‘‘بلا کسی خوف اور بارش کے،مگر امام الحرمین رحمہ اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’و لا مطر‘‘کے الفاظ حدیث میں نہیں ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ بات دلیل ہے کہ انھوں نے حدیث کی کتب مشہورہ کی بھی مراجعت نہیں کی چہ جائیکہ وہ دوسری کتابوں کی طرف رجوع کرتے۔ان کے الفاظ ہیں :