کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 19
’’ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے ان احادیث کے بارے میں پوچھا گیا جن کو ہمارے ائمہ اور ائمہ احناف کتب فقہ میں بیان کرتے ہیں مگر وہ کتب حدیث میں نہیں ملتیں،تو اس پر انھوں نے فرمایا:حدیث کی بہت سی کتابیں مشرقی ممالک میں فتنوں (حملہ تاتار) اور ہنگاموں کی نذر ہو کر نابود ہو چکی ہیں۔اس لیے عین ممکن ہے کہ وہ کتابیں ہم تک نہ پہنچی ہوں۔‘‘
اور علامہ سیوطی نے بھی حدیث ’’ اختلاف امتی رحمۃ،،کے بارے میں کہا ہے:
’’ ولعلہ خرج فی بعض کتب الحفاظ التی لم تصل الینا‘‘
(کشف الخفاء ج ۱ ص ۶۷ )
۲۔صاحب ہدایہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ امام،فقیہ،حافظ،محدث،مفسر،علوم کے جامع اور فنون کے ماہر تھے۔لہٰذا ایسے جلیل القدر امام کی شان یہ کیسے ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی کتاب میں ایسی روایتوں کو درج کرنا اپنا وطیرہ بنا لیں جو قابل احتجاج نہ ہوں،صاحب ہدایہ اور علامہ کا سانی رحمہ اللہ وغیرہ نے جو احادیث و آثار نقل کیے ہیں وہ ہمارے قدماء،ائمہ امام محمد،قاضی ابویوسف رحمہ اللہ وغیرہ کی تصانیف پر اعتماد کا نتیجہ ہے اور ارباب تخریج نے ان روایات کو متقدمین ائمہ احناف کی تصانیف میں تلاش کرنے کی بجائے محدثین مابعد کی ان کتابوں میں تلاش کیا جو ان کے عہد میں متداول تھیں۔
۳۔اگر ہدایہ کی بعض احادیث حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو نہیں ملیں تو کیا ہوا،انھیں امام بخاری کی بعض معلق روایات کا بھی تو علم نہیں ہوا،تو کیا ایسی صورت میں کہا جائے گا کہ امام بخاری بھی ضعیف روایتوں کے لانے کے عادی ہیں۔مولانا سردار احمد صاحب کی تیزی اور تلخی انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمالیں:
’’اگر ہدایہ کی بعض روایات بعد میں آنے والے محدثین کو نہ مل سکیں اور اس بناء پر ان پر وضع حدیث کا الزام لگایا جا سکتا ہے تو پھر امام بخاری رحمہ اللہ بھی اس الزام سے پاک قرار نہیں دیے جاسکتے،جب کہ غیر مقلدین حضرات آنکھیں بند کرکے بخاری کی جملہ روایات کو نص قطعی سے کم نہیں مانتے۔‘‘
(بینات:ص ۲۶)