کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 18
جس سے حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ مولیٰنا وحید الزماں نے تنقید الہدایہ میں ایسی روایات کے بارے میں جس رائے کا اظہار فرمایا ہے اس پر ان کا اعتماد کسی گاؤں یا محلے کے ’’حافظ صاحب‘‘پر نہیں بلکہ حافظ الدنیا ابن حجر رحمہ اﷲ پر ہے۔لہٰذا مولانا موصوف کا یہ کہنا کہ’’حقیقۃ الفقہ میں مولیٰنا جے پوری مرحوم کے دعویٰ کی بنیاد ناقابل اعتماد حوالوں پر ہے۔‘‘قطعاً غلط ہے۔پھر مولانا جے پوری نے گو یہاں ’’صرف تین۔‘‘روایات بطور دلیل و ثبوت کے پیش کی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ ہدایہ میں موضوع اور بے اصل روایات کی ’’تعداد صرف تین۔‘‘ہے جیسا کہ مولانا سردار احمد صاحب سمجھ رہے ہیں۔جس کی مزید وضاحت ان شاء اﷲ اپنے مقام پر آئے گی۔ نئی تک بندی مولانا عبدالرشید صاحب نعمانی ؔ وغیرہ کی تقلید میں ان کے شاگرد ِرشید بھی لکھتے ہیں کہ: ’’ہدایہ کی تخریج کرنے والوں نے اگر اپنے علم کی بنا پر ’’لم اجدہ‘‘فرمایا ہے تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ حدیث سر ے سے جعلی ہے۔ممکن ہے وہ روایت حدیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہو۔‘‘(بینات) کسی محدث اور ناقد امام کے قول :’’لم اجدہ‘‘کا کیامفہوم و مرتبہ ہے؟ اس تفصیل سے قبل یہ دیکھ لیجیے کہ ان حضرات کے دعویٰ کی اصل بنیاد کیا ہے۔چنانچہ اس سلسلے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔ ۱۔احادیث کی تخریج کرنے والے حضرات نے اپنے علم کی بناپر اس حدیث کے بارے میں ’’لم اجدہ‘‘فرمایا ہے ممکن ہے کہ وہ روایت حدیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہو۔جس کا اعتراف خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کیا ہے۔جسے علامہ ابراہیم بن حسن رحمہ اللہ کورانی الشافعی نے ’’ المسلک الوسط الدانی الی الدرر الملتقط للصنعانی‘‘میں حافظ سیوطی رحمہ اللہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ: