کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 17
سے نظری و فکری اختلاف کی تو گنجائش ہے کہ وہ معصوم قطعاً نہیں تھے۔مگر ان کے علم وفضل کا کون انکار کر سکتا ہے۔حدیث سے ان کا لگاؤ کا اندازہ آپ اس سے کر لیجیے کہ صحاح ستہ کے علاوہ امام مالک کے موطأ کا بھی پہلی بار ترجمہ انہی کا مرہون منت ہے۔اسی طرح حدیث پر ’’اشراق الابصار فی تخریج احادیث نور الانوار‘‘اور احسن الفوائد فی تخریج احادیث شرح العقائد‘‘کا ذکر بھی ان کی تصانیف میں ملتا ہے۔اس کے علاوہ کنز العمال جو حدیث شریف کا مشہور اور جامع ترین انسائیکلو پیڈیا ہے کی تصحیح کا شرف بھی انھیں حاصل ہے۔اور تقریباً ہر جلد کے خاتمہ پر اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے۔ ’’و قد اعتنی بتصحیح ھذا الکتاب زبدۃ العلماء و رأس الفضلاء قدوۃ المحققین زبدۃ المحدثین المولوی محمد وحید الزمان الملقب بنواب وقار نواز جنگ بہادر لازالت شموس افادتہ طالعۃ‘‘ جس سے علم حدیث کے ساتھ ان کے تعلق کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ عقائد اور فقہ وغیرہ پر ان کی دو درجن سے زائد تصانیف کا ذکر بھی ملتا ہے،ممکن ہے کہ مولیٰنا وحید الزمان کو متأخرکہہ کر جان کی امان پائیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ع کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے جب کہ خود انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ: ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صاحب ’’تنقید الہدایہ‘‘نے جن جن مقامات پر صاحب ہدایہ کی طرف وضع حدیث کی نسبت کی ہے ان میں ان کے پیش نظر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب ’’ الدرایۃ‘‘تھی اور مقامات پر حافظ صاحب نے اپنے علم کی بناء پر ’’ لم اجدہ‘‘فرمایا تھا۔یعنی یہ حدیث مجھے نہیں مل سکی۔مگر صاحب تنقید الہدایہ نے یہ سمجھا کہ یہ حدیث چوں کہ کتب حدیث میں نہیں ملی اس لیے صاحب ہدایہ کی طرف وضع کی نسبت کرکے ہدایہ کا علمی و فقہی مقام جیسے بھی بن سکے گراد یا جائے۔‘‘ (بینات ص ۱۸)