کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 16
ہدایہ پر ایک روایت نقل کرنے کی وجہ سے ’’افتراء‘‘کا لفظ استعمال کیا۔جس سے مولیٰنا جے پوری مرحوم نے اس بحث کا عنوان ہی ’’صاحب ہدایہ کا افتراء‘‘قائم کیا۔جس پر مولانا سردار احمد صاحب کی رگ حمیت پھڑک اٹھی اور ’’بینات‘‘میں احادیث ہدایہ کے متعلق ’’ایک غلط فہمی کا ازالہ،،کے عنوان سے ایک مضمون رقم فرمایا۔جس میں اس ’’حقیقۃ الفقہ‘‘کی تردید کے ساتھ صحیح بخاری کے متعلق انھوں نے وہی روش اختیار کی جو ان کے استاد محترم پہلے کر چکے تھے۔ہم یہاں اس سلسلہ میں ان کے مندرجات کا جائزہ پیش کر رہے ہیں۔(لیحق الحق و یبطل الباطل) مولانا موصوف لکھتے ہیں : ’’حقیقۃ الفقہ میں مقدمہ میں ایک عنوان ’’صاحب ہدایہ کا افتراء،،کے نام سے قائم کیا ہے اور پھر اسی کے ذیل میں ناقابل اعتماد حوالوں کی مدد سے ہدایہ کی ان احادیث کا ذکر کیا ہے جو ان کے زعم میں جعلی ہیں اور جن کی تعداد صرف تین ہے۔صاحب ہدایہ کا شغل حدیث کیا کم ہوتا ہے وہ تو ایک جلیل القدر محدث اور بلند پایہ حافظ الحدیث تھے،پھر وہ تمام احادیث جو وہ بیان کرتے ہیں کیوں کر ضعیف ہوں گی۔‘‘(بینات:ص ۱۷) گویا مولانا سردار احمد صاحب کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ’’ حقیقۃ الفقہ‘‘میں اس دعویٰ کی بنیاد ناقابل اعتماد حوالوں پر ہے۔ثانیاً: اس دعویٰ پر جو حدیثیں انھوں نے ذکر کی ہیں ان کی تعداد صرف تین ہے۔ثالثاً: صاحب ہدایہ حافظ الحدیث تھے لہٰذا ان کی تمام احادیث ضعیف کیوں کر ہو سکتی ہیں،حالانکہ بنیادی طور پر یہ تینوں باتیں صحیح نہیں۔’’حقیقۃ الفقہ‘‘میں اس دعویٰ کی بنیاد دراصل ’’تنقید الہدایہ‘‘پر ہے،مگر مولیٰنا سرداراحمد صاحب کو معلوم نہیں کہ اس کا مصنف کون ہے۔انہی کے الفاظ ہیں : ’’پہلے تو مؤلف کو تنقید الہدایہ کے مصنف کا نام ظاہر کرنا چاہیے تھا اور پھر ااس کے علمی حدود اربعہ کو سپرد قلم کرتے کہ فن حدیث میں ان کا کیا مقام ہے۔‘‘(بینات ص ۱۸) تنقید الہدایہ کا مصنف حالانکہ’’ تنقید الہدایہ‘‘مولانا وحید الزمان خاں کی تصنیف ہے۔مولانا موصوف