کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 14
’’ائمہ کرام ضعیف راویوں کی منفرد حدیث سے احکام میں استدلال نہیں کرتے،یہ ایسی حقیقت ہے کہ ائمہ محدثین میں سے کسی امام نے ایسا نہیں کیا اور نہ ہی دوسرے محققین علماء ایسا کرتے ہیں مگر اکثر فقہاء کا عمل اور ضعیف پر ان کا اعتماد درست نہیں بلکہ بہت ہی برا ہے۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ اور علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کے اس کلام سے بھی عموماً حضرات فقہائے کرام کی علم حدیث میں بے بضاعتی اور صحیح کے مقابلے میں ضعیف پر اعتماد بلکہ موضوع و بے اصل روایات سے استدلال کا علم ہوتا ہے،بلکہ شیخ عبداللطیف ٹھٹھوی حنفی جیسے متعصب بزرگ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ علامہ مرغینانی اور اکثر فقہاء ضعیف اور بے اصل روایات اپنی کتابوں میں ذکر کرتے ہیں،چنانچہ شیخ ابن عربی رحمہ اللہ کے ایک استدلال پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ یجوز أن یکون ھذا الحدیث ضعیفا غیر قابل للاستدلال بہ و مع ھذا استدل بہ کاستدلال صاحب الھدایۃ و کثیر من الفقہاء العرفاء با اللّٰہ بالأحادیث الضعیفۃ والغریبۃ التي لم توجد في کتب الحدیث‘‘ (ذب ذبابات الدراسات :ج ۱ ص۷۷۵) ’’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف اور استدلال کے قابل نہ ہو لیکن اس کے باوجود انھوں نے اس سے استدلال کیا جیسے صاحب ہدایہ اور بہت سے فقہاء جو عارف باﷲ حضرات ضعیف اور ایسی غریب روایات سے استدلال کرتے ہیں جو کتب حدیث میں پائی نہیں جاتیں۔‘‘ بلکہ انھوں نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ علامہ مرغینانی رحمہ اللہ نے دلائل عقلیہ ذکرکرنے کے لیے کتاب لکھی دلائل نقلیہ کے لیے نہیں۔چنانچہ ان کے الفاظ ہیں : ’’ قد علم من عادتہ انہ صنف کتابہ ھذا لإیراد الدلائل العقلیۃ دون النقلیۃ۔‘‘(ایضاً ص ۷۵،ج ۱) لیجیے جناب! یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور نکلا،جب دلائل نقلیہ اصل مقصود نہیں توان