کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 13
’’یعنی میرا خیال ہے کہ یہ بات جس نے کہی وہ جاہل ہے۔محققین کے مرتبہ سے بے خبر ہے اور وہ فقہاء اور محدثین کے فرق سے بھی واقف نہیں،اﷲ تعالیٰ نے ہر فن کے لیے علیٰحدہ علیٰحدہ آدمی اور ہر جگہ پر کلام کرنے والے پیدا کیے ہیں۔ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر ایک کا مرتبہ ومقام ملحوظ رکھیں،بڑے بڑے فقہاء جب تنقید حدیث کے علم سے واقف نہیں تو ہم ان کی ذکر کردہ روایات کو محدثین کی تحقیق کے بغیر بلا سند و حوالہ تسلیم نہیں کرتے۔‘‘ علامہ لکھنوی رحمہ اللہ کے اس بیان سے حقیقت بالکل آشکارہ ہو جاتی ہے کہ نقل روایات میں اعتبار حضرات محدثین پر ہے،فقہاء کرام پر نہیں۔ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے بھی اکثر فقہائے کرام کے بارے یہی شکوہ کیا ہے،چنانچہ ان کے الفاظ ہیں : ’’رأیت بضاعۃ أکثر الفقہاء في الحدیث مزجاۃ یعول أکثرھم علی أحادیث لا تصح،و یعرض عن الصحاح،و یقلد بعضھم بعضًا فیما ینقل‘‘ (التحقیق في اختلاف الحدیث :ج ۱ ص ۳) ’’میں نے اکثر فقہاء کی حدیث کے بارے میں پونجی کھوٹی دیکھی ہے،ان میں اکثر صحاح سے اعراض کرتے ہیں اور ایسی احادیث کی طرف رجوع کرتے ہیں جو ضعیف ہوتی ہیں اور وہ جو کچھ نقل کرتے ہیں ایک دوسرے کی تقلید میں کرتے ہیں۔‘‘ اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ ضعیف راویوں کے بارے تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ فإن الائمۃ لا یروون عن الضعفاء شیئا یحتجون بہ علی انفرادہ في الأحکام فإن ھذا شيء لا یفعلہ إمام من أئمۃ المحدثین و لا محقق من غیرھم من العلماء وأما فعل کثیرین من الفقہاء أو أکثرھم ذٰلک واعتمادھم علیہ فلیس بصواب بل قبیح جدا‘‘ألخ۔(شرح مسلم :ج ۱ ص۲۱)