کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 12
’’علامہ علی قاری کے کلام میں بہت اچھا فائدہ ہے اور وہ یہ کہ کتب فقہ اگرچہ مسائل فرعیہ میں معتبر ہیں اور ان کے مصنفین بھی قابل اعتبار اور فقہاء کاملین میں سے ہیں،لیکن ان میں منقولہ احادیث پر کلیۃً اعتماد نہیں کیا جائے گا اور ان کتابوں میں ہونے کی بنا پر ان کے ثبوت کا قطعاً یقین نہیں کیا جائے گا۔کتنی احادیث ہیں جو ان معتبر کتابوں میں مذکور ہیں حالانکہ وہ موضوع اور گھڑی ہو ئی روایات ہیں۔‘‘ مولانا سید امیر علی رحمہ اللہ مترجم ہدایہ نے بھی علامہ لکھنوی رحمہ اللہ کی یہ عبارت نقل کرکے اس کی تائید کی ہے۔(مقدمہ عین الھدایہ :ج۱ ص ۱۰۸) علامہ جمال الدین القاسمی رحمہ اللہ نے بھی علامہ علی قاری کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے: ’’ لا عبرۃ بالأحادیث المنقولۃ فی کتب الفقہ والتصوف مالم یظھر سندھا و إن کان مصنفھا جلیلاً‘‘ کہ ان احادیث کا کوئی اعتبار نہیں جو کتب فقہ و کتب تصوف میں منقول ہیں۔اگرچہ ان کا مصنف بڑا جلیل القدر ہی کیوں نہ ہو۔ (قواعد التحدیث :ص ۱۸۲) مولانا لکھنوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں کو جب میں نے علامہ علی قاری رحمہ اللہ کی یہ عبارت بتلائی کہ صاحب نہایہ کی نقل کی ہوئی احادیث قابل اعتبار نہیں تو انھوں نے کہاصاحب نہایہ کے مقابلہ میں علامہ علی قاری رحمہ اللہ قابل اعتبار نہیں۔مولانا لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ ھذا قول أظن أنّ من صدر عنہ جاھل لا یعرف مراتب المحققین و لا یعلم الفرق بین الفقہاء و المحدثین،فإن اللّٰہ تعالیٰ خلق لکل فن رجالاً و جعل لکل مقام مقالا و یلزم علینا أن ننزلھم منازل ھم و نضعھم بمراتبھم،فأجلۃ الفقہاء اذا کانوا عارین من تنقید الأحادیث لا نسلّم الروایات التی ذکروھا من غیر سند و لا مستند إلا بتحقیق المحدثین‘‘ (ردع الاخوان : ص ۶۰۔۶۱،حاشیہ الأجوبۃ الفاضلۃ :ص ۳۴)