کتاب: احادیث ہدایہ فنی وتحقیقی حیثیت - صفحہ 112
دوسروں کی تصحیح سے مقدم ہے۔علامہ قاسم قطلوبغا نے انھیں فقیہ النفسی قرار دیا ہے۔ (النافع الکبیر ص ۱۰۳،الفوائدا لبہیہ ص ۶۵) اس کے برعکس صاحب ہدایہ کا شمار چوتھے یا پانچویں طبقہ میں ہوتا ہے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اصحاب الترجیح اور تیسرے طبقہ والے بھی اجتہاد پر قادر نہیں۔علامہ کاشمیری مرحوم نے ایک مقام پر صاحب ہدایہ رحمہ اللہ اور قاضی خاں رحمہ اللہ کے مابین اجرت تعلیم کے مسئلہ میں اختلاف کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ : ’’اعتماد قاضی خاں پر ہے۔‘‘ ’’ لان رتبۃ قاضی خاں اعلیٰ من الھدایۃ کما صرح بہ العلامۃ القاسم‘‘(فیض الباری ص ۲۷۶ ج ۳) ’’کیوں کہ قاضی خاں کا مرتبہ ہدایہ سے بلند ہے۔جیسا کہ علامہ قاسم رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے۔‘‘ لیجیے جناب! یہاں کاشمیری صاحب رحمہ اللہ نے قاضی خاں رحمہ اللہ کو صاحب ہدایہ ہی سے نہیں بلکہ ان کے فتاویٰ کو ’’الہدایہ‘‘ سے بھی اعلیٰ قرار دیا۔ نیز صاحب ہدایہ ادیب اور شاعر بھی تھے۔(الفوائد البہیہ ص ۱۴۱) اس لیے اگر انھوں نے ادبی زبان میں فقہی مسائل کو جمع کر دیا ہے تواس سے یہ کیوں کر لازم آجاتا ہے کہ مسائل فقہیہ میں بھی وہ لاجواب کتاب ہے۔لہٰذا کاشمیری صاحب کا انکار اس کے ادب و بیان کی بنا پر ہے،اس سے مسائل و استنباطات کی بنا پر نہیں۔اس سلسلے میں قاضی خاں کا مرتبہ صاحب ہدایہ سے کہیں بلند ہے۔جیسا کہ انھوں نے خود صراحت کی ہے۔ اللھم ارنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ و ارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ۔آمین یارب العالمین۔! ارشاد الحق اثری عفی عنہ ٭٭٭